اندرون لاہور سرکاری اراضی اور گلیوں کو شامل کر کے غیر قانونی تعمیرات کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو گئی ہے۔بلدیہ عظمٰی لاہور کی ملکیتی اراضی بھی محفوظ نہیں رہی ہے جس کے پہلے فیلتھ ڈپووں پر قبضہ کروایا گیا ۔اب گلیاں سکڑنے کے بعد ختم کروائی جا رہی ہیں۔ تاریخی بنگلہ ایوب شاہ کی ایم سی ایل کی ملکیتی اراضی پر پہلے مارکیٹس اور اب نیا پلازہ تعمیر کروایا جا رہا ہے۔یہ اراضی میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور نے واگذار کروائی تھی اور جعلی رجسٹری منسوخ کروا کر نیلامی میں رکھ دی لیکن والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کا مافیا غیر قانونی تعمیرات میں ملوث پلازہ مافیا کے گٹھ جوڑ سے باز نہیں آ رہا ہے۔بلدیات ٹائمز کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شاہ عالم سکیم میں سرکاری اراضی شامل کر کے پلازے تعمیر کروائی گئے ہیں اب اندرون شہر کی دیگر وارڈ میں بھی بلڈنگ بائی لاز اور ریگولیشن پر عمل درآمد کروانے میں اتھارٹی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کامران لشاری کو 20 دسمبر 2024 کو ایک تفصیلی درخواست دی گئی جس میں ایف وارڈ میں ہونے والی درجنوں غیر قانونی تعمیرات اور بنگلہ ایوب شاہ کی مزید پراپرٹی پر قبضہ کی نشاندہی کی گئی۔جس پر ڈائریکٹر جنرل والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کامران لشاری نے ڈپٹی ڈائریکٹر بلڈنگ کنٹرول و ٹاؤن پلاننگ سے رپورٹ طلب کر لی۔اس درخواست کا ڈائری نمبر Dn=638dg office ہے۔والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی طرف سے درخواست کے بعد کارروائی کی بجائے غیر قانونی تعمیرات کو جلد از جلد مکمل کروانے پر توجہ مرکوز کر دی گئی جن میں سے 80 فیصد غیر قانونی تعمیرات مکمل جبکہ باقی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔کسی بلڈنگ میں اندر یا باہر پارکنگ کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔خلاف قانون اضافی بسیمنٹ اور گلیوں اور راہ داری کو بھی نہیں بخشا گیا۔جبکہ 20 دسمبر 2024 کو دی گئی درخواست میں ملوث افسران و ملازمین کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔اس درخواست کا مکمل متن اس طرح تھا
بخدمت ڈائریکٹر جنرل والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی
جناب محترم!
ایف وارڈ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے کنٹرولڈ ایریا میں درجنوں غیر قانونی اور خطرناک تعمیرات اور سرکاری اراضی پر قبضہ کے حوالے سے ضروری معلومات آپ کے نوٹس میں لا رہا ہوں۔سب سے اہم یہ ہے کہ شیراں والا گیٹ اندرون شہر کی فصیل سے متصل بنگلہ ایوب شاہ جو تاریخی ورثہ ہے پر قبضہ کروا کر کمرشل پلازے اور مارکیٹ بنوا دی گئی ہے جو راستہ بچا تھا اس پر بھی پلازہ مافیا نے غیر قانونی کمرشل تعمیر شروع کر رکھی ہے ۔بنگلہ ایوب شاہ کی یہ ٹرسٹ کی اراضی بلدیہ عظمٰی لاہور کے سپرد تھی جو ایجوکیشن کے لئے وقف تھی جس پر کچھ راوی ٹاؤن اور باقی پر والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ٹاؤن پلاننگ و انفورسمنٹ ونگ نے قبضہ کروا کے کمرشل تعمیرات کروا دیں۔بنگلہ ایوب شاہ کی تاریخی عمارت کے بچے کچے آثار پر اب غیر قانونی کمرشل تعمیرات کروائی جا رہی ہیں۔یہ تاریخی ورثہ ختم ہونے کے قریب ہے بلکہ شہر کی فصیل کی خوب صورتی اور وجود بھی ان غیر قانونی کمرشل تعمیرات سے بری طرح متاثر اور خطرہ میں ہے۔ایف وارڈ میں کشمیری گیٹ،شیراں والا گیٹ کے ملحقہ ایریاز میں صرف مین پر والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے کنٹرولڈ ایریا میں بلڈنگ بائی لاز و ریگولیشنز کی خلاف ورزی کر کے بڑے پیمانے پر جو تعمیرات کروائی جا رہی ہیں جن میں سے متعدد کی تصاویر بمعہ ایڈریس لف ہیں تاکہ آپ خود یا کسی ذمہ دار اور ایماندار آفیسر کے ذریعے تصدیق کر سکیں۔بنگلہ ایوب شاہ ٹرسٹ کا ریکارڈ ایم سی ایل کے شعبہ اسٹیٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ان غیر قانونی تعمیرات میں والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے شعبہ انفورسمنٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبدالعزیز اور انسپکٹر امتیاز کے علاوہ ٹاؤن پلاننگ کے افسران اور عملہ ملوث ہے جو پلازہ مافیا کو سرکاری گلیاں،سڑکیں اور راہ داری پر بھی قبضہ کا موقع دے رہا ہے۔
جس سے نقشہ فیس اور جرمانوں کی مدمیں کروڑوں روپے کا سرکاری خزانے کونقصان کے علاوہ غیر قانونی تعمیرات اور سرگرمیوں میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اہم بات ہے کہ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے قوانین کے مطابق 10 مرلے سے کم اراضی پر ایک بھی بسیمنٹ کی اجازت نہ ہے مگر ڈبل بسیمنٹ بنوائی جا رہی ہیں۔چار منزلہ تعمیر کی بجائے آٹھ سے دس منزلہ غیر قانونی تعمیرات تصاویر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔دس مرلہ یا اس سے زائد پر تعمیر کی صورت میں ایک بسیمنٹ اور چار منزلہ تعمیر کی اجازت ہے لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔یہ صرف ایف وارڈ کا مین حصہ ہے اندرون گلیوں میں صورتحال اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور بے ہنگم اور خطرناک تعمیرات سے شہریوں کی جانوں اور ملحقہ پرانی تعمیرات کو بھی خطرہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی اندرون لاہور کو بچانے کے لئے جامع ماسٹر پلان بنائے جس پر عمل درآمد سے ہی لاہور کے تاریخی ورثے اور اندرون اور پرانے لاہور کو نیا ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔انکوائری کی صورت میں درجنوں مزید غیر قانونی اور سرکاری اراضی شامل کر کے تعمیر کی گئی اور زیر تعمیر عمارتوں کی نشاندہی کر سکتا ہوں۔ماضی میں راوی ٹاؤن انتظامیہ غیر قانونی تعمیرات میں ملوث رہی ہے لیکن سرکاری اراضی یا راہ داری شامل کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔لیکن والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے متعلقہ افسران نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔گذارش ہے کہ اندرون لاہور کو بچانے کے لئے خود صورتحال کا جائزہ اور نوٹس لیں۔یہ بات اہم ہے کہ تاریخی ورثہ کی امین ہونے کی دعویدار والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی تاریخی داخلی دروازوں تک کا تحفظ نہیں کر سکی۔جس کے ساتھ یہ قسم کی تعمیرات پر پابندی ہے اور قانونی طور پریہ ایریا فریز ہے۔لیکن ان داخلی دروازوں کے ساتھ غیر قانونی طور پر پلازے اور مارکیٹس بنوائی گئی ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے جس میں کشمیری گیٹ یکی گیٹ شیرانوالہ گیٹ،موچی گیٹ اور دیگر شامل ہیں۔شروع میں ڈی جی کامران لشاری کی طرف سے عدالت کی طرف سے نوٹس لینے پر پلازہ مافیا کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ ہوا۔چند غیر قانونی تعمیرات کی فہرستیں بھی بنیں لیکن اب سب باہمی رضامندی،اتفاق،حسن سلوک اور ملی بھگت سے چل رہا ہے۔چیف سیکرٹری سمیت کسی متعلقہ سیکرٹری ،کمشنر،ڈپٹی کمشنر کی مجال نہیں کہ وہ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی غیر قانونی سرگرمیوں یا اقدامات پر نوٹس لے سکے۔محکمہ بلدیات کا کردار ڈاکیہ کا ہے۔یہ بات بھی ہے کہ اندرون لاہور میں قبضوں اور غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی اور پولیس ایک پیج پر ہیں۔