*مولوی اسماعیل میرٹھی* 12 نومبر 1844ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1917ء کو وہیں وفات پائی

*رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری گائے بنائی

*نہر پر چل رہی ہے پن چکی

دھن کی پوری ہے کام کی پکی

*کوے ہیں سب دیکھے بھالے

چونچ بھی کالی ، پر بھی کالے کالی

*جب کہ دو موذیوں میں ہوکھٹ پٹ

اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ

*ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں

ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں

*تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا

کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

*ادب سے ہی انسان انسان ہے

ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے

*بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت

نہیں کام آتی دلیل اور حجت

*ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر

تو ہے خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر

*جو بات کہو صاف ہو ستھری ہو بھلی ہو

کڑوی نہ ہو کھٹی نہ ہو مصری کی ڈلی ہو

 

یہ ضرب المثل اشعار مولوی اسماعیل میرٹھی کے ہیں ، آج ان کی برسی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے ان کی کتابیں پڑھ کر اردو سیکھی۔

 

مولوی اسماعیل میرٹھی 12 نومبر 1844ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1917ء کو وہیں وفات پائی۔ ان کا شمار جدید اردو ادب کے ان اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے جن میں مولانا الطاف حسین حالی، مولوی محمد حسین آزاد وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے اس وقت اردو زبان و ادب کی آبیاری کی جب فارسی زبان و ادب کا بول بالا تھا۔ مدارس میں فارسی کتابوں کا چلن تھا اور گھروں میں صرف انفرادی طور پر اردو کی تعلیم ہوتی تھی۔ اس وقت بچوں کی تدریسی ضرورتوں کا ادراک کرتے ہوئے جس شخص نے باقاعدہ بچوں کے ادب کی طرف توجہ دی وہ مولوی اسماعیل میرٹھی تھے۔ انھوں نے نظمیں بھی لکھیں اور پہلی سے پانچویں جماعت تک کے لیے اردو کی درسی کتابیں بھی تصنیف کیں۔ ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتب کیا۔ سب کتابوں میں بچوں کی نفسیات کے مطابق اسباق شامل کرتے ہوئے ان کی عمروں کا بھی خاص خیال رکھا ۔ ان کی درسی کتابیں ہزاروں مدارس اور اردو میڈیم اسکولوں کے نصاب میں شامل رہیں۔

مولوی اسماعیل میرٹھی نے اپنے روحانی استاد اور پیر کے حالات پر بھی ایک کتاب تذکرہ غوثیہ‘ کے نام سے مرتب کی ۔ دہلی کے مشہور عالم اور ادیب منشی ذ کاء اللہ نے بھی سرکاری اسکولوں کے لیے اردو ریڈروں کا ایک سلسلہ مرتب کیا تھا، ان میں بھی مولانا اسمٰعیل کی نظمیں شامل کی تھیں۔ مولانا نے جغرافیہ پر بھی ایک کتاب لکھی جو اسکولوں کے نصاب میں داخل رہی۔ جنگِ آزادی کی تحریک کے وقت 14سالہ اسمٰعیل نے محسوس کرلیا تھا کہ اس وقت اس مردہ قوم کو جگانے اور جگائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انھوں نے دینی علوم کی تکمیل کے بعد جدیدعلوم سیکھنے پر توجہ دی، انگریزی میں مہارت حاصل کی، انجنیئرنگ کا کورس پاس کیا، مگر ان علوم سے فراغت کے بعد اعلیٰ ملازمت حاصل کرنے کی بجائے تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔جہاں ان کی ملاقات قلق میرٹھی سے ہوئی۔ قلق میرٹھی نے انگریزی کی پندرہ اخلاقی نظموں کا منظوم ترجمہ ’جواہر منظوم‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس منظوم ترجمے نے اسماعیل میرٹھی کو بہت متاثر کیا، جس سے نہ صرف ان کی شاعری میں بلکہ جدید اردو نظم میں وہ انقلاب برپا ہوا کہ اردو ادب جدید نظم کے نادر خزانے سے مالامال ہو گیا۔

مولانا نے مدرسۃ البنات کے نام سے 1909ء میں لڑکیوں کا ایک اسکول میرٹھ میں قائم کیا، یہ درس گاہ آج بھی قائم ہے اور اس کا نام اسماعیلیہ ڈگری گرلز کالج ہے۔

ان تمام مصروفیات کے باوجود آپ مسلمانوں کی سیاسی تربیت سے غافل نہیں رہے، انہی سیاسی خدمات کے پیشِ نظر انہیں 1911ء میں میرٹھ شہر کی مسلم لیگ کا نائب صدر منتخب کیا گیا تھا، اسی طرح وہ انجمن ترقی اردو کی مجلسِ شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ اسماعیل میرٹھی، میرٹھ کے جس محلے مشائخاں میں پیدا ہوئے تھے۔ اب وہ اسماعیل نگر کے نام سے معروف ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button