سائنس فکشن میں کی جانے والی حیران کن پیشگوئیاں جو درست ثابت ہوگئیں

آئی پیڈ (1968)

سائنس فکشن فلم 2001: اے اسپیس اوڈیسے میں مستقبل کے بارے میں کافی پیشگوئیاں کی گئی تھیں جن میں سے ایک درست ثابت ہوئی۔ اس فلم میں ایسے ٹیبلیٹس کا استعمال دکھایا گیا جو آج کے آئی پیڈز سے کافی ملتے جلتے ہیں۔ یہ فلم اسی نام سے شائع ہونے والے ناول پر مبنی تھی جس میں ایسی ڈیوائسز کو نیوز پیڈ کا نام دیا گیا تھا۔

 

وائی فائی اور موبائل فون (1909)

پہلے موبائل فون سے 60 سال سے زیادہ عرصے پہلے اور وائی فائی سے 9 دہائیوں قبل الیکٹریکل انجینئر اور تھامس ایڈیسن کے سابق ساتھی نیکولا ٹیسلا نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جلد دنیا بھر میں وائرلیس پیغامات کو بھیجنا ممکن ہوجائے گا اور ہر فرد اپنے آپریٹس لے کر پھرے گا۔ یعنی انہوں نے موبائل فون یا وائی فائی کا نام تو نہیں لیا مگر اس کا بنیادی تصور ضرور پیش کیا۔

 

کریڈٹ کارڈز (1888)

کالج سے تعلیم مکمل کیے بغیر نکلنے والے سائنس فکشن مصنف ایڈورڈ Bellamy نے 1888 میں شائع ہونے والے ناول Looking Backward میں کریڈٹ کارڈ کا تصور پیش کیا تھا۔ناول کے ایک کردار نے اس بارے میں بتایا کہ ہر فرد کے پاس ایک فزیکل پنچ کارڈ ہوگا جس سے وہ دکانوں سے اپنی پسند کی ہر چیز خرید سکے گا۔

 

چاند پر انسانوں کا اترنا (1865)

ویسے یہ بات درست ہے کہ اکثر سائنس فکشن ناولز میں یہ تصور پیش کیا گیا کہ انسان چاند تک جانے کے قابل ہوسکتے ہیں مگر 1865 میں جولیس ورنے کے ناول فرام ارتھ ٹو دی مون میں اس حوالے سے جو تفصیلات بیان کی گئیں وہ چاند پر حقیقی انسانی لینڈنگ سے ملتی جلتی تھیں۔ ناول میں تو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ چاند پر پہلے مشن میں 3 خلاباز شریک ہوں گے، جبکہ مصنف نے خلا میں انسانی بے وزنی کے تجربے کا ذکر بھی کیا جو حقیقت ثابت ہوا۔

 

ٹائی ٹینک کا ڈوبنا (1898)

1898 کو مورگن رابرٹسن کا ناول Futility, Or The Wreck of the Titan شائع ہوا تھا اور انہوں نے پڑھنے والوں کو ایک بحری جہاز ٹائٹن کے بارے میں بتایا تھا جس کے بنانے والوں کا دعویٰ تھا کہ وہ کبھی ڈوب نہیں سکتا مگر ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب جاتا ہے۔ اس ناول کے 14 سال بعد دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز ٹائی ٹینک تیار ہوا اور اسی طرح ڈوب گیا جیسا ناول میں لکھا گیا تھا۔

 

اعضا کی پیوندکاری (1660)

پہلی بار اعضا کی پیوندکاری 1954 میں ہوئی مگر ایک کیمیا دان رابرٹ بوائل نے اس کی پیشگوئی 1660 میں کردی تھی۔ رابرٹ بوائل کو اکثر جدید کیمیا کا بانی کہا جاتا ہے اور ان کی جانب سے مستقبل کے بارے میں کئی پیشگوئیاں کی گئی تھیں جو کافی حد تک درست ثابت ہوئیں۔

 

انٹرنیٹ (1898)

1898 میں مارک ٹوائن نے ایک مختصر کہانی فرام دی لندن ٹائمز آف 1904 میں انٹرنیٹ کا تصور پیش کیا تھا۔ انہوں نے telelectroscope نامی تصور پیش کیا تھا جس میں فون سسٹم کو استعمال کرکے ایسا ورلڈ وائیڈ نیٹ ورک تیار ہوتا جس سے انفارمیشن شیئر کرنا ممکن ہوجاتا، یہ خیال موجودہ عہد کے انٹرنیٹ سے کافی ملتا جلتا ہے۔

 

ایٹم بم (1914)

ایچ جی ویلس نے اپنے ناول دی ورلڈ سیٹ فری میں یورینیم سے بنے بموں کی تیاری کی پیشگوئی کی تھی جو بہت زیادہ تباہی مچا سکتے تھے، جسے انہوں نے ایٹم بم کا نام دیا تھا اور مصنف کا کہنا تھا کہ یہ بم مستقبل میں بہت زیادہ تباہی مچائیں گے۔ ان کی کتاب شائع ہونے کے 31 سال بعد حقیقی ایٹم بم کو جاپانی شہروں پر گرایا گیا۔

 

اسٹریمنگ سروسز (1987)

ایک انٹرویو کے دوران فلمی ناقد رابرٹ Ebert سے مستقبل کے سنیما کے بارے میں پیشگوئی کرنے کا کہا گیا تھا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ہمارے پاس بڑی اسکرین والے ایچ ڈی ٹی وی ہوں گے اور ایک بٹن سے ہم اپنی پسند کی فلم کا آرڈر کرسکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کو ویڈیو اسٹور نہیں جانا ہوگا بلکہ ادائیگی کرکے فلم کو دیکھ سکیں گے۔

 

گرین ہاؤس گیسز کے اثرات (1917)

الیگزینڈر گراہم بیل کو ٹیلیفون ایجاد کرنے والے سائنسدان کے طور پر جانا جاتا ہے، مگر 1917 میں ایک تحقیقی مقالے میں انہوں نے خبردار کیا تھا کہ روایتی ایندھن کو کنٹرول میں نہ رکھا گیا تو گرین ہاؤس گیسز کے منفی اثرات کا سامنا ہوگا، جس کے نتیجے میں زمین گرم ہوجائے گی۔

 

سوشل میڈیا (1999)

1999 میں مائیکرو سافٹ کے شریک بانی بل گیٹس مستقبل کی معیشت کے بارے میں چند پیشگوئیاں کی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایسی ویب سائٹس سامنے آئیں گی جو لوگوں کو اپنے دوستوں اور گھر والوں سے بات چیت میں مدد فراہم کریں گی، آسان الفاظ میں بل گیٹس نے فیس بک یا ٹوئٹر سے قبل سوشل میڈیا کی آمد کی پیشگوئی کی تھی۔

 

ڈیجیٹل فوٹوگرافی (1900)

ایک انجینئر John Elfreth Watkins نے 1900 میں لیڈز ہوم جرنل میں مستقبل کے بارے میں متعدد پیشگوئیاں کی تھیں جن میں سے اکثر درست ثابت نہیں ہوئیں۔ مگر فوٹوگرافی کے بارے میں ان کا تصور درست ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوٹوگرافرز ہر طرح کے رنگ کو تصویروں کا حصہ بناسکیں گے اور فوٹوز کو کسی بھی جگہ سے ٹرانسمیٹ کرسکیں گے۔

 

جی پی ایس (1993)

1993 میں ایک اشتہار میں مستقبل کی ٹیکنالوجیز کے بارے میں بات کی گئی تھی جن میں سے ایک جی پی ایس جیسی ٹیکنالوجی بھی تھی۔اس کے 6 سال بعد امریکی صدر بل کلنٹن نے جی پی ایس ٹیکنالوجی کو ڈی کلاسیفائی کیا تھا جس کے بعد وہ تمام افراد کو دستیاب ہوئی۔

 

ائیربڈز (1953)

1953 کے ناول فارن ہائیٹ 451 میں مصنف رے براڈ بری نے ائیربڈز کا خیال پیش کیا تھا، حالانکہ اس وقت تک اس قسم کی کوئی ایجاد سامنے نہیں آئی تھی۔ اس ناول میں جس معاشرے کو دکھایا گیا تھا وہ سی شیلز نامی ڈیوائس کو استعمال کرتا تھا جس کو کانوں میں لگا کر موسیقی کو سنا جاتا تھا یا لوگوں سے بات کی جاتی تھی، یعنی یہ ڈیوائس آج کے وائرلیس ائیربڈز سے کافی ملتی جلتی ہے۔

 

آن لائن شاپنگ (1967)

1967 کی ایک مختصر فلم 1999 اے ڈی میں مستقبل کے گھر کو دکھایا گیا تھا جو آج کے گھروں سے کافی ملتا جلتا تھا، جس میں آن لائن شاپنگ کرنا ممکن تھا۔

 

مریخ کے 2 چاند (1726)

1726 میں جوناتھن سوئفٹ نے اپنے ناول گیلیورز ٹریولز میں دعویٰ کیا تھا کہ مریخ کے دو چاند ہیں اور انسانوں کو یہ حقیقت جاننے میں مزید 151 سال لگے تھے۔ حیران کن طور پر مصنف نے مریخ کے ان 2 چاند کے حجم اور مدار کے گرد گردش کی رفتار کی بھی درست پیشگوئی کی تھی.

+

 

ناول افسانوں کی کچھ اور خیالی باتیں جو بعد میں حقیقت بنیں

 

لیبارٹری میں گوشت کی پیداوار

 

گوشت کی اس طرح تیاری کا ذکر 1897 کے سائنس فکشن ناول ٹو پینلز میں ملتا ہے جس میں مصنف کرڈ لاسوٹز نے لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے گوشت کا ذکر کیا تھا، اس ناول میں مریخ کے باسیوں نے اس طرح کی مختلف غذائیں زمین کے لیے متعارف کرائی تھیں۔

 

ائیرفون اور ہیڈ سیٹس

 

1953 کے ناول فارن ہائیٹ 451 میں مصنف رے براڈ بری نے ائیرفون کا ذکر کیا تھا، حالانکہ اس وقت تک اس قسم کی کوئی ایجاد سامنے نہیں آئی تھی، اس ناول میں جس معاشرے کو دکھایا گیا تھا وہ کچھ ایسی ایجادات کا تذکرہ سی شیلز اور تھمبی ریڈیوز کے نام سے کرتے تھے جو آج کے ائیر فون اور بلیوٹوتھ ہیڈ فون سے مشابہہ ہیں۔

 

سکون آور ادویات

 

الڈویوس ہکسلے کے ناول بریو نیو ورلڈ میں ایسے معاشرے کا ذکر کیا گیا تھا جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے، منشیات کے عادی شہری مزاج خوشگوار رکھنے کے لیے مخصوص ادویات کا استعمال کرتے تھے جو اداسی اور پریشان کن خیالات سے نجات دلاتی، یہ ناول سکون آور ادویات کے پہلے تجربات سے دو دہائیوں قبل لکھا گیا تھا اور مصنف نے اس کی دنیا بھر میں مقبولیت کی بھی درست پیشگوئی کی

 

سی سی ٹی وی کیمرے

(بڑے پیمانے پر نگرانی کا سازوسامان)

 

جارج اورویل نے سنہ 1949 میں لکھے گئے ناول ‘1984‘ میں آج کی جدید دنیا کے بہت سے پہلوؤں کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ آج صرف لندن میں ہر 14 افراد کے لیے ایک سی سی ٹی وی کیمرہ موجود ہے۔ اس صورتحال کا موازنہ اورویل کی ڈیسٹوپین ریاست کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جس میں عوام کی ’بگ برادر‘ کے ذریعے نگرانی کی جاتی ہے۔

 

شمسی توانائی

 

ہر چھت پر سولر پینل دیکھنے کے بعد کیا آپ کو حیرت ہوگی کہ ایک صدی پہلے شمسی توانائی کی پیش گوئی کر دی گئی تھی؟ اپنے 1911 کے ناول ’رالف 124 سی 41+‘ میں ہوگو گرنس بیک نے ایسی جگہوں پر اپنی مہم جوئی کے بارے میں لکھا تھا جہاں سولر پینلز نصب ہیں۔

یہ ناول شمسی توانائی سے چلنے والے پہلے کیلکولیٹرز کی ایجاد سے 60 سال پہلے لکھا گیا تھا۔

 

مکینیکل ہاتھ

 

1942 میں مصنف رابرٹ ہینلن نے والڈو ایف جونز نامی جسمانی طور پر معذور موجد کے بارے میں ایک مختصر کہانی لکھی۔ اس کہانی میں ، والڈو نے ’والڈو ایف جونز کا سنکرونئیس ریڈپلیکیٹنگ پینٹوگراف‘ تخلیق کیا اور رجسٹر کرایا۔ ایک مکینیکل ہاتھ جسے دور سے چلایا جا سکتا ہے۔ اس کہانی کے شروع میں جوہری صنعت میں استعمال ہونے والے ریموٹ مینوپلیٹر بازو کو ’والڈوس‘ کہا جاتا ہے۔

 

آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ورچوئل اسسٹنٹس اور ٹیبلیٹس

 

سنہ 1968 میں لکھے گئے ناول ’2001: اے سپیس اوڈیسی‘ (پہلے ٹیبلٹ کمپیوٹر کی ایجاد سے 30 سال قبل)، آرتھر سی کلارک نے ایک الیکٹرانک پیپر یا ’نیوز پیڈ‘ کے بارے میں لکھا جسے اس دنیا کے لوگ پڑھتے تھے۔ انھوں نے آواز سے چلنے والے سپر کمپیوٹر ایچ اے ایل 9000 کا تصور بھی پیش کیا جو آواز سے چلنے والے ان ورچوئل اسسٹنٹس سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو آج کل بہت سے گھروں اور کاروباری اداروں میں باقاعدہ استعمال ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے خطرات سے خبردار بھی کیا تھا۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو اب بھی سائنس فکشن میں باقاعدگی سے زیرِ بحث آتا ہے۔

 

سیٹلائٹ ٹی وی اور الیکٹرک کاریں

 

پہلی بار سنہ 1968 میں شائع ہونے والا جان برونر کا ناول ’سٹینڈ آن زانزیبار‘ سال 2010 کے متعلق ہے۔ یہ ناول مستقبل کی بالکل درست پیش گوئیوں سے بھر پور ہے۔حتیٰ کے اس میں امریکہ کے مقبول رہنما صدر ابوبامہ کے بارے میں پیشن گوئی بھی شامل ہے۔ اور یہ تو صرف آغاز ہے۔ برونر نے ایسی گاڑیوں کے بارے میں لکھا جو ریچارجایبل الیکٹرک ایندھن والے سیلوں سے چلتی ہوں۔

اس کے علاوہ انھوں نے ٹی وی نیوز چینلز کے بذریعہ سیٹلائٹ عالمی سطح پر چلائے جانے کے بارے میں بھی پیشن گوئی کی تھی۔

 

برقی اعضا

حتیٰ کہ طبی معجزات کے بارے میں بھی پیش گوئی کی گئی تھی۔ مارٹن کیڈین کے 1972 میں لکھے گئے ناول ’سائبرگ‘ کی کہانی ایک ایسے پائلٹ اسٹیو آسٹن کے بارے میں ہے جو ایک پرواز کے دوران گر کر شدید زخمی ہو جاتے ہیں اور ان کے پاس صرف ایک عضو اور ایک آنکھ بچتی ہے۔ ناول میں سائنسدانوں کا ایک گروپ آسٹن کو نئی ٹانگیں، ایک برقی بازو اور کیمرے کے ساتھ ایسی آنکھ بھی فراہم کرتے ہیں جسے ضرورت کے مطابق لگایا یا ہٹایا جا سکے۔ اس طرح آسٹن مشین اور انسان کا ایک مجموعہ ’سائبرگ‘ بن جاتے ہیں۔ یہ ناول پہلی بایونک آرم ٹرانسپلانٹ سے 20 سال قبل لکھا گیا تھا.

 

سرد جنگ اور واٹر بیڈ

 

مصنف رابرٹ ہینلین نے 1941 میں ایک مختصر کہانی میں سرد جنگ اور ایٹمی دوڑ کی پیشگوئی کی جو درست ثابت ہوگئی، اسی طرح انہوں نے واٹر بیڈ کی بھی پیشگوئی 1961 کے ناول اسٹرینجر ان اسٹرینج لینڈ میں کی تھی اور وہ بھی حقیقت کا روپ دھار گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button