کراچی کے اونٹ والے اور امریکی نائب صدر کی دوستی

یہ اب سے 62 برس پہلے کی بات ہے۔

20 مئی 1961 کو امریکہ کے اُس وقت کے نائب صدر لِنڈن بی جانسن پاکستان کے دورے پر کراچی پہنچے تھے۔ اُن کا قافلہ ڈرگ روڈ (موجودہ شارع فیصل) پر ہوائی اڈے سے ایوانِ صدر کی طرف رواں دواں تھا۔ سڑک کے اطراف ان کا خیر مقدم کرنے والے عوام کا ہجوم تھا۔

 

جانسن نے تمام سفارتی اور حفاظتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے کئی بار راستے میں اپنی گاڑی روکی اور گاڑی سے اُتر کر لوگوں سے ہاتھ ملائے اور خوش خلقی سے باتیں کیں۔

 

ڈرگ روڈ ریلوے سٹیشن کے نزدیک انھیں اچانک ایک اونٹ گاڑی نظر آئی۔ وہ اپنے قافلے کو رُکوا کر گاڑی سے اترے اور حفاظتی تدابیر کا خیال کیے بغیر سیدھے اس گاڑی کے مالک کے پاس پہنچ گئے جس کا نام بشیر احمد تھا۔ انھوں نے ترجمان کی مدد سے اس سے بے تکلفانہ گفتگو کی۔

 

اونٹ گاڑی پر بھوسہ لدا ہوا تھا۔ لنڈن بی جانسن کے استفسار پر بشیر احمد نے انھیں بتایا کہ یہ مویشیوں کا چارہ ہے اور اس کے اونٹ کی عمر پانچ سال ہے۔ بشیر احمد نے جانسن کو یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے اونٹ کو پیار سے ’غازی‘ کہتا ہے۔

بشیر احمد کی سادگی پر جانسن بہت خوش ہوئے اور انھوں نے اس سے کہا کہ آج سے ہم دونوں دوست ہیں اور کیا وہ اپنے اس نئے دوست سے ملنے کے لیے امریکہ آنا پسند کریں گے۔

بشیر احمد نے جواب دیا ‘کیوں نہیں، کیوں نہیں۔ بے شک، بے شک ۔ شکریہ ،شکریہ۔‘ ان الفاظ کے علاوہ وہ کچھ اور نہ کہہ سکے۔ اس پر سب لوگ ہنس پڑے۔ جانسن نے بشیر کو ایک خوبصورت بال پوائنٹ قلم تحفے کے طور پر دیا۔

بشیر احمد امریکی نائب صدر سے اس اتفاقیہ ملاقات کو شاید بھول جاتے مگر اگلے دن تمام پاکستانی اخبارات میں ان کی خوبصورت تصاویر چھپی ہوئی تھیں۔ راتوں رات وہ پاکستان کے ایک بڑے آدمی بن گئے تھے۔ چند دن بعد روزنامہ ‘جنگ‘ کراچی میں معروف کالم نگار ابراہیم جلیس نے اپنے کالم ‘وغیرہ وغیرہ‘ میں اس واقعے کا ذکر کیا اور لنڈن بی جانسن کے اس اقدام کی بڑی تعریف کی۔

 

ادھر امریکی سفارت خانے نے اس کالم کا ترجمہ لنڈن بی جانسن کو، جو امریکہ پہنچ چکے تھے، روانہ کر دیا۔ یہ کالم پڑھ کر لنڈن بی جانسن کو کراچی کا اونٹ گاڑی بان اور اس کو دی گئی دعوت یاد آ گئی۔

 

لنڈن بی جانسن نے فوری طور پر بشیر احمد کو سرکاری طور پر امریکہ آنے کی دعوت بھجوا دی۔ جس کے بعد اخباری نمائندوں، امریکی سفارت خانے کے افراد، سیاح اور تماش بین سبھی نے لانڈھی میں اُن کی بوسیدہ جھونپڑی پر یلغار کر دی۔

بشیر احمد اس جھونپڑی میں اس وقت سے مقیم تھے جب وہ اپنا گھر بار بریلی میں چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔ بشیر احمد امریکی نائب صدر کی دعوت ملنے کے بعد ایک اور الجھن میں مبتلا ہوئے کہ وہ روز کنواں کھودتے تھے اور روز پانی پیتے تھے اگر وہ امریکہ چلے گئے تو ان کے بچوں کا رزق کیسے چلے گا۔

 

امریکی سفارت خانے نے اس مسئلے کا حل یوں نکالا کہ بشیراحمد کی عدم موجودگی میں اُن کے بچوں کو 25 روپے روزانہ دینے کا انتظام کر دیا۔ بشیر احمد اس طرف سے مطمئن ہوئے تو انھوں نے اپنے یادگار سفر کی تیاریاں شروع کر دیں۔

 

ادھر امریکی ذرائع ابلاغ میں جب یہ خبر عام ہوئی تو ‘ریڈرز ڈائجسٹ‘ نے امریکہ میں بشیر احمد کا میزبان بننے کی پیشکش کر دی اور یوں پاسپورٹ اور ویزے کے مراحل سے گزرنے کے بعد 14 اکتوبر 1961 کو بشیر احمد امریکہ کے سفر پر روانہ ہو گئے۔

 

سفر پر روانگی سے قبل حکومت پاکستان نے بشیر احمد کے ملبوسات پر خصوصی توجہ دی اور انھیں تین شیروانیاں اور ایک جناح کیپ تحفے میں پیش کیں تاکہ وہ امریکہ پہنچ کر ایک باوقار پاکستانی کی طرح نظر آئیں۔ حکومت نے لنڈن بی جانسن کو پیش کرنے کے لیے کچھ تحائف بھی ان کے ہمراہ کر دیے۔

 

بشیر احمد جب امریکہ کے لیے روانہ ہوئے تو امریکی سفیر ولیم ایم رائوٹر بہ نفس نفیس انھیں ہوائی جہاز کی سیڑھیوں تک چھوڑنے کے لیے آئے۔ امریکی فضائی کمپنی ’پین ایم‘ نے انھیں فرسٹ کلاس میں امریکہ کا سفر کروایا۔ ان کے لیے پاکستانی کھانے کا خاص انتظام کیا اور ان کے ہمراہ اُردو بولنے والا ایک پاکستانی کر دیا تاکہ ان کا سفر آسانی سے کٹ سکے۔

 

بشیر احمد اونٹ گاڑی بان، جسے اب بشیر ساربان کہا جانے لگا تھا، لندن سے ہوتے ہوئے امریکہ پہنچے۔ لندن اور نیویارک، دونوں مقامات پر بشیر ساربان کو سرکاری مہمان کا پروٹوکول دیا گیا۔ امریکہ میں اُن کا استقبال کرنے والوں میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر عزیز احمد بھی شامل تھے۔

 

بشیر احمد کا یہ دورہ تقریباً دو ہفتے جاری رہا۔ نائب صدر جانسن نے ان سے اپنی ملاقات کی تجدید کی۔ جانسن نے بشیر احمد کو دیکھ کر ان سے تکلفاً کہا کہ ‘افسوس ہے کہ آج یہاں کا موسم خراب ہے اور خنک ہوائیں چل رہی ہیں۔‘ بشیر احمد نے ترجمان کی مدد سے نہایت قرینے سے جواب دیا ‘جب تک لوگوں کے دلوں میں جذبات کی گرمی ہے، سرد ہوائوں سے کچھ نہیں ہوتا۔‘

 

بشیر احمد کو نیویارک میں والڈ روف سٹوریا ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اور انھیں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر اور ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی سیر کروائی گئی۔ ان کی ملاقات امریکہ کے ایک سابق صدر ہیری ایس ٹرومین سے بھی کروائی گئی جو بشیر احمد سے مل کر بہت خوش ہوئے۔

 

امریکی ذرائع ابلاغ کو جب بشیر ساربان کی امریکہ آمد کی خبر ملی تھی تو وہ اسے ایک دلچسپ واقعہ سمجھے تھے اور انھوں نے اپنے مزاح نگار کالم نگاروں کو بشیر ساربان کے دورے کی کوریج کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ مگر اس دورے کے دوران بشیر ساربان نے، جو بالکل بھی پڑھے لکھے نہیں تھے، اپنی ذہانت سے بھرپور باتوں سے امریکی ذرائع ابلاغ کو بڑا متاثر کیا۔

 

ابرہم لنکن کی یادگار پر بشیر احمد نے کہا ‘جب کوئی شخص اپنے ملک کے لیے جان قربان کر دیتا ہے اور ملک اس کی خدمات کو سراہتا ہے تو ایک ایسی ہی یادگار بنا دی جاتی ہے جو قیامت تک قائم رہتی ہے۔‘ امریکی کانگریس کو دیکھنے کے بعد بشیر احمد نے کہا کہ ‘جب بہت سے لوگ مل کر کسی مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا حل بہتر نکلتا ہے۔ ایک دماغ سے غلطی کا امکان ہے لیکن جب ہزاروں دماغ ایک ساتھ مل کر کام کریں تو غلطیوں کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔‘

 

انھوں نے مجمع میں ایک لڑکی کو دیکھ کر کہا کہ ’بیٹی کی مثال گھر میں اسی طرح ہوتی ہے جیسے موسموں میں بہار کا موسم ہوتا ہے۔‘ ان سے پوچھا گیا کہ ‘اونٹ کیسا جانور ہے؟‘ تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ‘اونٹ کی مثال عورت کی طرح ہے جس کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ اس کا اگلا قدم کیا ہو گا۔‘

‘بشیر احمد جہاں کہیں بھی گئے دلچسپ باتوں کے پھول برساتے گئے، امریکی ذرائع ابلاغ نے لکھا کہ ‘یہ یقین کرنا خاصا مشکل ہے کہ بشیر احمد ایک ان پڑھ شخص ہے۔‘

 

ٹائم میگزین نے لکھا کہ ‘بشیر احمد نے عوام اور اخباری نمائندوں سے نمٹنے میں ایک مغل شہزادے کی سی آن بان سے کام لیا۔‘ خود بشیر احمد کے ترجمان سعید خان نے کہا کہ ‘بشیر اس روانی اور فصاحت سے باتیں کرتے تھے کہ ان کا ترجمہ کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔‘

 

بشیر احمد کو امریکہ کے مختلف اداروں نے بہت سے تحفے تحائف دیے جن میں فورڈ کمپنی کی جانب سے دیا گیا ایک ٹرک بھی شامل تھا جس پر سفید اور سبز رنگ کر کے اسے پاکستانی پرچم سے ہم آہنگ کیا گیا تھا۔ لنڈن بی جانسن نے بشیر ساربان کے بیٹے کے لیے ایک سپورٹس سائیکل بھی بطور تحفہ پیش کی۔

 

جانسن نے بشیر احمد کو ہاتھ میں پہننے والی ایک سنہری الارم والی گھڑی بھی پیش کی جو بشیر کو بہت پسند آئی۔ لنڈن بی جانسن نے سفر کے اختتام پر بشیر ساربان کو عمرہ کروانے کی پیشکش کی۔ بشیر ساربان لنڈن بی جانسن کی اس عنایت پر اشکبار ہو گئے اور انھوں نے امریکی نائب صدر کی یہ پیشکش قبول کر لی۔

 

چند ماہ بعد مارچ 1962 میں امریکی صدر کی اہلیہ مسز جیکولین کینیڈی اور ان کی بہن رازیوال نے پاکستان کا خیر سگالی دورہ کیا۔ ان کا یہ دورہ 21 مارچ 1962 کو لاہور سے شروع ہوا جہاں ان کا پُرجوش استقبال کیا گیا۔

 

دورے کے آخری مرحلے میں 25 مارچ 1962 کو وہ کراچی پہنچیں۔ اسی روز انھوں نے کراچی کے ایوان صدر میں امریکہ کے نائب صدر لنڈن بی جانسن کے دوست بشیر ساربان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر بشیر ساربان نے اپنی بیوی اور بچوں سے مسز کینیڈی کا تعارف کروایا اور انھیں اپنے اونٹ ‘غازی‘ پر سیر کی دعوت دی۔

 

مسز کینیڈی نے یہ دعوت بڑی خوش دلی سے قبول کی اور اپنی بہن کے ساتھ ایوان صدر کے لان میں پانچ منٹ تک بشیر کے اونٹ کی سواری کی۔ مسز کینیڈی اس سواری سے بہت خوش ہوئیں اور انھوں نے اس اونٹ کے ساتھ کئی تصاویر بھی بنوائیں۔

 

1971 میں جب ضیا محی الدین نے پاکستان ٹیلی وژن سے اپنا مشہور شو شروع کیا تو انھوں نے اس پروگرام میں بشیر ساربان کو بھی مدعو کیا۔ انھوں نے بشیر ساربان سے پوچھا کہ انھوں نے پاکستان واپس آ کر اونٹ گاڑی چلانا کیوں چھوڑ دیا ہے تو بشیر ساربان نے بے ساختہ جواب دیا کہ مجھ سے جانسن نے کہا تھا کہ پاکستان واپس جا کر میری پوزیشن کا خیال رکھنا۔

 

1963 میں جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد لنڈن بی جانسن امریکہ کے صدر بن گئے اور اس عہدے پر وہ سنہ 1968 تک فائز رہے۔ 22 جنوری 1973 کو جب لنڈن بی جانسن کا انتقال ہوا تو میڈیا کو بشیر ساربان ایک مرتبہ پھر یاد آئے۔ وہ کراچی میں امریکی قونصل خانے میں مدعو کیے گئے جہاں انھوں نے لنڈن بی جانسن کے انتقال پر رکھی گئی تعزیتی کتاب میں اپنے تاثرات رقم کیے۔

 

اس کے بعد بشیر ساربان ایک مرتبہ پھر غربت اور گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو گئے اور 14 اگست 1992 کو جب اُن کا انتقال ہوا تو بہت سے لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ اس گمنام شخص کی خبریں اور تصاویر کبھی دنیا بھر کے اخبارات میں صفحہ اوّل کی زینت بنی تھیں۔

(عقیل عباس جعفری: بی بی سی)

 

+شبیر سومرو صاحب فرماتے ہیں :

ببشیر کو دو ٹرک تحفے میں ملے تھے۔ ایک ٹرک اس بیورو کریٹ نے ہتھیالیا تھا جو بطور گائیڈ ساتھ گیا تھا۔وہ بیوروکریٹ بعد میں وزیر خارجہ بھی بنا.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button