لیبارٹری میں گوشت کی پیداوار
گوشت کی اس طرح تیاری کا ذکر 1897 کے سائنس فکشن ناول ٹو پینلز میں ملتا ہے جس میں مصنف کرڈ لاسوٹز نے لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے گوشت کا ذکر کیا تھا، اس ناول میں مریخ کے باسیوں نے اس طرح کی مختلف غذائیں زمین کے لیے متعارف کرائی تھیں۔
ائیرفون اور ہیڈ سیٹس
1953 کے ناول فارن ہائیٹ 451 میں مصنف رے براڈ بری نے ائیرفون کا ذکر کیا تھا، حالانکہ اس وقت تک اس قسم کی کوئی ایجاد سامنے نہیں آئی تھی، اس ناول میں جس معاشرے کو دکھایا گیا تھا وہ کچھ ایسی ایجادات کا تذکرہ سی شیلز اور تھمبی ریڈیوز کے نام سے کرتے تھے جو آج کے ائیر فون اور بلیوٹوتھ ہیڈ فون سے مشابہہ ہیں۔
سکون آور ادویات
الڈویوس ہکسلے کے ناول بریو نیو ورلڈ میں ایسے معاشرے کا ذکر کیا گیا تھا جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے، منشیات کے عادی شہری مزاج خوشگوار رکھنے کے لیے مخصوص ادویات کا استعمال کرتے تھے جو اداسی اور پریشان کن خیالات سے نجات دلاتی، یہ ناول سکون آور ادویات کے پہلے تجربات سے دو دہائیوں قبل لکھا گیا تھا اور مصنف نے اس کی دنیا بھر میں مقبولیت کی بھی درست پیشگوئی کی
سی سی ٹی وی کیمرے
(بڑے پیمانے پر نگرانی کا سازوسامان)
جارج اورویل نے سنہ 1949 میں لکھے گئے ناول ‘1984‘ میں آج کی جدید دنیا کے بہت سے پہلوؤں کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ آج صرف لندن میں ہر 14 افراد کے لیے ایک سی سی ٹی وی کیمرہ موجود ہے۔ اس صورتحال کا موازنہ اورویل کی ڈیسٹوپین ریاست کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جس میں عوام کی ’بگ برادر‘ کے ذریعے نگرانی کی جاتی ہے۔
شمسی توانائی
ہر چھت پر سولر پینل دیکھنے کے بعد کیا آپ کو حیرت ہوگی کہ ایک صدی پہلے شمسی توانائی کی پیش گوئی کر دی گئی تھی؟ اپنے 1911 کے ناول ’رالف 124 سی 41+‘ میں ہوگو گرنس بیک نے ایسی جگہوں پر اپنی مہم جوئی کے بارے میں لکھا تھا جہاں سولر پینلز نصب ہیں۔
یہ ناول شمسی توانائی سے چلنے والے پہلے کیلکولیٹرز کی ایجاد سے 60 سال پہلے لکھا گیا تھا۔
مکینیکل ہاتھ
1942 میں مصنف رابرٹ ہینلن نے والڈو ایف جونز نامی جسمانی طور پر معذور موجد کے بارے میں ایک مختصر کہانی لکھی۔ اس کہانی میں ، والڈو نے ’والڈو ایف جونز کا سنکرونئیس ریڈپلیکیٹنگ پینٹوگراف‘ تخلیق کیا اور رجسٹر کرایا۔ ایک مکینیکل ہاتھ جسے دور سے چلایا جا سکتا ہے۔ اس کہانی کے شروع میں جوہری صنعت میں استعمال ہونے والے ریموٹ مینوپلیٹر بازو کو ’والڈوس‘ کہا جاتا ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ورچوئل اسسٹنٹس اور ٹیبلیٹس
سنہ 1968 میں لکھے گئے ناول ’2001: اے سپیس اوڈیسی‘ (پہلے ٹیبلٹ کمپیوٹر کی ایجاد سے 30 سال قبل)، آرتھر سی کلارک نے ایک الیکٹرانک پیپر یا ’نیوز پیڈ‘ کے بارے میں لکھا جسے اس دنیا کے لوگ پڑھتے تھے۔ انھوں نے آواز سے چلنے والے سپر کمپیوٹر ایچ اے ایل 9000 کا تصور بھی پیش کیا جو آواز سے چلنے والے ان ورچوئل اسسٹنٹس سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو آج کل بہت سے گھروں اور کاروباری اداروں میں باقاعدہ استعمال ہو رہے ہیں۔ انھوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے خطرات سے خبردار بھی کیا تھا۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو اب بھی سائنس فکشن میں باقاعدگی سے زیرِ بحث آتا ہے۔
سیٹلائٹ ٹی وی اور الیکٹرک کاریں
پہلی بار سنہ 1968 میں شائع ہونے والا جان برونر کا ناول ’سٹینڈ آن زانزیبار‘ سال 2010 کے متعلق ہے۔ یہ ناول مستقبل کی بالکل درست پیش گوئیوں سے بھر پور ہے۔حتیٰ کے اس میں امریکہ کے مقبول رہنما صدر ابوبامہ کے بارے میں پیشن گوئی بھی شامل ہے۔ اور یہ تو صرف آغاز ہے۔ برونر نے ایسی گاڑیوں کے بارے میں لکھا جو ریچارجایبل الیکٹرک ایندھن والے سیلوں سے چلتی ہوں۔ انھوں نے ٹی وی نیوز چینلز کے بذریعہ سیٹلائٹ عالمی سطح پر چلائے جانے کے بارے میں بھی پیشن گوئی کی تھی۔
برقی اعضا
حتیٰ کہ طبی معجزات کے بارے میں بھی پیش گوئی کی گئی تھی۔ مارٹن کیڈین کے 1972 میں لکھے گئے ناول ’سائبرگ‘ کی کہانی ایک ایسے پائلٹ اسٹیو آسٹن کے بارے میں ہے جو ایک پرواز کے دوران گر کر شدید زخمی ہو جاتے ہیں اور ان کے پاس صرف ایک عضو اور ایک آنکھ بچتی ہے۔ ناول میں سائنسدانوں کا ایک گروپ آسٹن کو نئی ٹانگیں، ایک برقی بازو اور کیمرے کے ساتھ ایسی آنکھ بھی فراہم کرتے ہیں جسے ضرورت کے مطابق لگایا یا ہٹایا جا سکے۔ اس طرح آسٹن مشین اور انسان کا ایک مجموعہ ’سائبرگ‘ بن جاتے ہیں۔ یہ ناول پہلی بایونک آرم ٹرانسپلانٹ سے 20 سال قبل لکھا گیا تھا.
سرد جنگ اور واٹر بیڈ
مصنف رابرٹ ہینلین نے 1941 میں ایک مختصر کہانی میں سرد جنگ اور ایٹمی دوڑ کی پیشگوئی کی جو درست ثابت ہوگئی، اسی طرح انہوں نے واٹر بیڈ کی بھی پیشگوئی 1961 کے ناول اسٹرینجر ان اسٹرینج لینڈ میں کی تھی اور وہ بھی حقیقت کا روپ دھار گئی۔