امام الہند کے لقب سے مشہور مولانا ابوالکلام آزاد علیہ رحمہ کا آج 136 واں یومِ ولادت ہے اور آج پورے ہندوستان میں یوم تعلیم منایا جا رہا ہے

پورا نام : ابوالکلام محی الدین احمد

تخلص : #آزاد

 

ولادت : 11 نومبر 1888ء مکہ سعودی عربیہ

وفات : 22 فبروری 1958ء دہلی متحدہ بھارت

 

مولانا ابوالکلام آزاد کی ہمہ گیر شخصیت کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں وہ اگر

مجاہد آزادی تھے تو ایک عالم دین بھی تھے انہیں قرآن ، فقہ علم الکلام ، علم الحدیث پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی ایک عظیم خطیب زبردست صحافی ، عالی مرتبہ مجتہد ، عظیم دانشور ، بلند پایہ مفکر ، فلسفی اور جنگ آزادی کے عظیم قومی رہنما تھے آپ نے ملک کی جد وجہد آزادی میں بہت اہم رول ادا کیا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مولانا کی آزادی کے لئے کی جانے والی جد وجہد کے ان گنت نقوش مہاتما گاندھی جی پر دیکھے جاسکتے ہیں آپ نے اس ملک و قوم کے لئے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی مولانا ابوالکلام آزاد 1888 کو دنیا کے مقدس ترین مقام مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے عربی آپ کی مادری زبان تھی 1895 میں وہ کلکتہ پہنچے یہاں ان کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی اللہ نے انہیں حافظہ اور ذہانت کی دولت سے فراخ دلی کے ساتھ نوازا تھا انہوں نے تیرہ چودہ برس کی عمر میں فقہ ، حدیث ، منطق اور ادبیات پر عبور حاصل کرلیا تھا 1902 تک آپ کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ مکمل ہوچکا تھا اپنے والد مولانا خیر الدین کے علاوہ مولوی ابراہیم ، مولوی محمد عمر ، مولوی سعادت حسن وغیرہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی آپ نے دس گیار برس کی عمر میں شعر گوئی کا آغاز کیا اور مولوی عبدالواحد کی تجویز پر آزاد تحلص پسند کیا بعد میں نثر نگاری کی طرف توجہ کی مولانا ابوالکلام آزاد نے قرآن و حدیث و فقہ کا گہرا مطالعہ کیا مولانا کا عقیدہ تھا کہ قرآن ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے مولانا ادبی ، سماجی ، تاریخی اور سیاسی تحریروں میں قرآن کے حوالے موجود ہیں رانچی قیام کے زمانے میں ترجمان القرآن ترتیب دیا اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ’الصلوۃ و الزکوۃ‘ اور ’النکاح‘ وغیرہ تصانیف مکمل کی مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ ادبی اور سیاسی میدان میں گزرا آپ نے بہت سے رسالوں میں مضامین لکھے اور کئی ادبی رسالے شائع کئے مولانا نے سب سے پہلا رسالہ ماہ نامہ ’’نیرنگِ عالم‘‘ 1899 میں جاری کیا اس وقت مولانا کی عمر صرف گیارہ برس تھی یہ رسالہ سات ، آٹھ مہینے جاری رہا بعد میں المصباح ، احسن الاخبار ہفت روزہ پیغام ، الجامعہ وغیرہ رسائل میں خدمت انجام دیں ۔ 1909 میں ’’لسان الصدق‘‘ ماہ نامہ رسالہ کا پہلا شمارہ کلکتہ سے شائع ہوا اس کا اول مقصد اصلاح معاشرت دوسرا مقصد ترقی تیسرا مقصد علمی ذوق کی اشاعت اور چوتھا مقصد تنقید یعنی اردو تصانیف کا منصفانہ جائزہ لینا مولانا نے 31 جولائی 1906ء کو ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ کا پہلا شمارہ شائع کیا ۔ اس کا اہم مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا تھا الہلال مسلمانوں کی ملی غیرت ، ایمانی حرارت اورمذہبی حمیت کا بڑا محاذ بن گیا الہلال میں ادبی علمی سیاسی اور تاریخی مضامین شائع ہوتے تھے سماجی و تہذیبی مسائل پر اظہار خیال ہوتا مختصراً یہ کہ الہلال نے اردو صحافت کو نیا راستہ دکھایا الہلال ہندوستان کا پہلا اخبار تھا جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے سیاسی و غیر سیاسی مقاصد کی تکمیل اور اپنے اعمال میں اتباع شریعت کی تلقین کے ساتھ ساتھ ادبی ، علمی ، سیاسی اور تاریخی مضامین بھی شائع ہوتے تھےحکومت نے الہلال پریس کو ضبط کرلیا تو مولانا نے ’’البلاغ‘‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیاجس میں ادب تاریخ، مذہب اور معاشرت کے مسائل بیان کئے جاتے تھے البلاغ کو مذہبی تبلیغ کا ذریعہ بنایا گیا جنگ آزادی کی طویل جد وجہد میں جو شعلہ بیان مقرر پیدا ہوئے ان میں مولانا کا نام سرفہرست ہے مولانا ایک بے باک مقرر تھے جب وہ کسی موضوع پر بات کرتے تھے تو ان کا ایک خاص پروقار اور پرجلال انداز ظاہر ہوتا تھا ۔ قارئین کی خدمت میں مولانا کی تقریر کا ایک حصہ پیش کیا جاتا ہے ’’اسلام کسی ایسے اقدار کو جائز تسلیم نہیں کرتا جو شخصی ہو یا چند تنخواہ دار آفیسروں کی بیوروکریسی ہو وہ آزادی اور جمہوریت کا ایک مکمل نظام ہے جو نوع انسانی کو اس کی چھینی ہوئی آزادی واپس دلانے کے لئے آیا ہے اور خدا کے سوا کسی انسان کو سزاوار نہیں کہ بندگان خدا کو اپنا محکوم اور غلام بنائے‘‘ ڈاکٹر کیٹلر کے مطابق میں نے آج تک ایسا مقرر نہیں دیکھا جس کی زبان میں مولانا کی زبان سے زیادہ مٹھاس ہو میں نے جب بھی ان کی تقریر سنی ہے ہر بار محسوس کیا ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر بول رہے ہیں ، زبان ان کے تابع ہوتی ہے غالباً مولانا پہلے جلیل القدر مسلم رہنما تھے جنھوں نے اپنی زور قوت کے ساتھ ہندوستان کی متحدہ قومیت کا تصور پیش کیا اور اسے ملک کے عوام و خواص میں رائج و راسخ کرنے کے لئے اپنی تمام تر ذہنی ، علمی اور استدلالی صلاحیتیں صرف کردیں اور وہ اس طرح سیاست کے میدان میں اپنی مستقل مزاجی کے ساتھ قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرکے حب الوطنی ، قومی یکجہتی کے اعلی سے اعلی مثالیں پیش کیں مولانا کے کارناموں میں ’’غبار خاطر‘‘ کو ایک اہم امتیازی مقام حاصل ہے غبار خاطر مولانا کے اس کے خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے دوسری جنگ عظیم کی نظربندی کے دوران مولانا حبیب الرحمن شروانی کو لکھے اس وقت مولانا احمد نگر کے قلعہ میں قید تھے غبار خاطر میں جو خطوط شامل ہیں وہ خطوط نہیں بلکہ مختلف موضوع پر انشایئے ہیں بڑی تعداد میں غبار خاطر کے خطوط نثری نظم کی تعریف پر پورے اترتے ہیں غبار خاطر مولانا کے خطوط کا پہلا مجموعہ تھا جسے اجمل خان نے مرتب کرکے 1946 میں شائع کیا دوسرا مجموعہ کاروان خیال ہے جسے شاہد خاں شروانی نے شائع کیا تھا ان کے خطوط کا ایک اور مجموعہ برکات آزاد کے نام سے شائع ہوا ہے جس میں مولانا سید سلیمان ندوی عبدالماجد دریا آبادی ، نیاز فتح پوری خواجہ حسن نظامی وغیرہ کے نام خطوط شامل ہیں مولانا آزاد جنگ آزادی کے ایک ہیرو ہی نہ تھے بلکہ ان کی شخصیت متنوع تھی آپ نہ صرف مسلمانوں کے لئے تعمیری سوچ و فکر رکھنے والے شعلہ بیان مقرر اور بیدار جید عالم دین ہی نہ تھے بلکہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مجاہد آزادی کے لئے ایک حوصلہ مند سپہ سالار تھے مولانا مسلمانوں کی نئی نسل کو قدیم تاریخ تہذیب و تمدن سے روشناس کرانے والے مورخ بھی تھے اور کانگریس پارٹی کے لئے اندھیرے میں چراغ کی حیثیت رکھتے تھے انہوں نے زندگی کے آخری لمحے تک ملک و قوم کی خدمت کرکے ثابت کردیا کہ وہ ہندوستان کے سچے سپوت ہیں مولانا کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گاندھی جی نے کہا تھا ’’مولانا انڈین نیشنل کانگریس کے اعلی ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرے‘‘ سیاست میں مولانا آزاد کا نظریہ خالص وطن پرستی اور ہندو مسلم اتحاد تھا انہوں نے مذہب کا گہرا مطالعہ کیا تھا مولانا سیاسی میدان میں قدم رکھا تھا تو کسی ذاتی مفاد یا نام ونمود کی خواہش کے لئے نہیں تھا بلکہ ان کا خیال تھا کہ مسلمان جنگ آزادی کے مرکزی دھارے سے ذرا بھی ہٹتے ہیں تو اس سے ملک اور قوم کو نقصان ہوگا اور ملک میں نفرت کی دیوار کھڑی ہوجائے گی اپنی تقریر میں وہ نہایت ہی جذباتی اور انقلابی تھے مگر ان کے سیاسی نظریات جذبات کی پیداوار نہیں تھے مولانا کی شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ’’میں سیاست کا طالب علم ہوں اور میں نے سیاست کی کتابیں ہندوستان میں سب سے زیادہ پڑھی ہیں یوروپ کے دورے میں سیاست کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور میں سمجھتا ہوں کہ میں سیاست کے اعلی ترین علم سے واقفیت حاصل کرلی ہے لیکن جب ہندوستان پہنچ کر مولانا آزاد سے باتیں کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت آگے ہیں طویل جد وجہد کے بعد جب ملک کو آزادی ملی تو ملک میں عبوری حکومت قائم ہوئی ابتداً مولانا آزاد اس میں شریک نہیں تھے لیکن پنڈت نہرو کے اصرار پر حکومت میں شامل ہوئے اور وزارت تعلیم اور سائنسی تحقیقات کے قلم دان کی ذمہ داری بہ حسن وخوبی نبھائی بقول آزاد ’’وزارت تعلیم کی ذمہ داری سنبھالتے ہی میں نے پہلا فیصلہ جو لیا وہ یہ تھا کہ ملک میں اعلی و فنی تعلیم کے حصول کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ خود ہم اپنی ضرورتیں پوری کریں میں اس دن کا منتظر ہوں جب ہندوستان میں باہر سے لوگ آکر سائنس اور فنی تعلیم میں تربیت حاصل کریں ان مقاصد کی تکمیل کے لئے مولانا نے کئی اہم اور ٹھوس قدم اٹھائے اور انہوں نے کئی اداروں کا قیام عمل میں لایا یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ، انڈین کونسل فار اگریکلچر اینڈ سائنٹیفک ریسرچ ، انڈیا کونسل فار میڈیکل ریسرچ ، انڈین کونسل فار سائنس ریسرچ وغیرہ ، سنٹرل کونسل فار انڈسٹریل ریسرچ ادارے کو متحرک بناتے ہوئےانہوں نے اس میں تحریک پیدا کیا اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ، بنگلور کی توسیع و ترقی کی نیشنل کونسل فار ٹکنیکل ایجوکیشن کے توسط سے ملک میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کا جال بچھادیا مولانا آزاد کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے فنی تعلیم و تربیت کے لئے 1951 میں کھڑک پور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کے قیام کو عمل میں لایا مولانا آزاد آخری دم تک ملک کی اعلی اور فنی تعلیم کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے جدید ہندوستان میں 1947ء سے 1957ء تک فنی تعلیم کی سہولتوں اور ان سے استفادہ کنندگان کا جائزہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مولانا کے دور وزارت میں اعلی اور فنی تعلیم کے ارتقاء کے لئے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے رہتی دنیا تک ملک کے عوام اسے یاد رکھیں گے ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا انتہائی نازک ترین عہد تھا اور اسی عہد کی "نازک مزاجیوں” کی وجہ سے مولانا کی مذہبی و علمی و ادبی حیثیت پس پردہ چلی گئی حالانکہ مولانا کو سولہ سترہ برس کی عمر ہی میں مولانا کہا جانا شروع ہو گیا تھا خیر یہ مولانا کی سیاست پر بحث کرنےکا محل نہیں ہے نیز جدید ہندوستان کی تعمیر میں مولانا نےاہم حصہ ادا کیا عالم اسلام خصوصاً ہندوستان کی یہ روشن ترین شمع 22 فروری 1958ء کو گل ہوگئی اور دہلی کے پریڈ گراؤنڈ میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان انہیں سپرد لحد کیا گیا امام الہند مولانا ابوالکلام محی الدین احمد مولانا کے چند اشعار پیش کرنا مقصود ہے مولانا لڑکپن میں اشعار کہا کرتے تھے اور آزاد تخلص کرتے تھے شاید بعد میں اشعار کہنا ترک فرما دیے تھے یا انکی مصروفیات اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ شاعری کیلیے وقت نہیں ملتا تھا لیکن تخلص انکے نام کا جزوِ لاینفک ضرور بن گیا مولانا کی خودنوشت سوانح "آزاد کی کہانی، آزاد کی زبانی” میں مولانا آزاد کے چند اشعار شامل ہیں ۔

 

💐 سب سے پہلے مولانا کی ایک رباعی جو مذکورہ کتاب کے مرتب مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے دیباچے میں لکھی ہے اور کیا خوبصورت رباعی ہے 💐

 

تھا جوش و خروش اتّفاقی ساقی

اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی

میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا

میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی

 

اور ایک غزل کے تین اشعار جو اسی کتاب کے متن میں مولانا نے خود تحریر فرمائے ہیں 👇

 

نشتر بہ دل ہے آہ کسی سخت جان کی

نکلی صدا تو فصد کھلے گی زبان کی

 

گنبد ہے گرد بار تو ہے شامیانہ گرد

شرمندہ مری قبر نہیں سائبان کی

 

آزاد بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ

پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی

 

ایک مزید شعر اسی کتاب میں سے

 

سب لوگ جدھر ہیں وہ ادھر دیکھ رہے ہیں

ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button