تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
آج شکیب جلالی کی برسی ہے
شکیب جلالی نے 12نومبر 1966 کو صرف 32 برس کی عمر میں ریل کے آگے کود کر خودکشی کرلی تھی۔
شکیب جلالی کا اصل نام سید حسن رضوی تھا ۔ وہ یکم اکتوبر 1934ء کو علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی. میٹرک بدایوں سے کیا جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ والدہ کی حادثاتی موت نے سید حسن رضوی کے ذہن پر بہت اثر ڈالا اور پندرہ سولہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی۔ شکیب جلالی دسمبر 1950 میں پاکستان آئے. سیالکوٹ سے انٹر اور لاہور سے بی اے. کیا. ایم اے کی تیاری کے دوران ٹیوشن پڑھاتے رہے. لیکن ایم اے کا امتحان نہ دے سکے. لاہور سے راولپنڈی منتقل ہوگئے. وہاں ایک دوست کے ساتھ مل کر ماہنامہ "گونج” جاری کیا جو چل نہ سکا. پھر لاہور واپس آئے اور مختلف رسائل سے وابستہ ہوئے، جن میں ماہنامہ شاہکار، ہفت روزہ وحدت اور جاوید شامل تھے. روزنامہ مغربی پاکستان میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر کام کرتے رہے. کچھ عرصہ روزنامہ مشرق میں جزوقتی ملازمت کی اور بالآخر تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی جوہر آباد کے شعبہ تعلقاتِ عامہ میں اسسٹنٹ پبلسٹی آفیسر بن گئے ۔ لیکن غیر مطمٔن ہی رہےاور محض 32 سال کی عمر میں سرگودھا اسٹیشن کے پاس ٹرین کے سامنے کود کر خودکشی کر لی ۔ موت کے بعد ان کی جیب سے یہ شعر ملا:
تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
کہا جاتا ہے شکیب کے باپ کی ذہنی بیماری کے باعث شکیب کی ماں نے ٹرین کے نیچے آ کر خود کشی کرلی تھی ۔ 10 سالہ شکیب نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ منظر دیکھا۔ اس منظر نے ساری زندگی اُن کا پیچھا نہ چھوڑا۔
شکیب جلالی کا مجموعہ کلام ’’روشنی اے روشنی‘‘ ان کی موت کے چھ سال بعد 1972 میں لاہور سے شائع ہوا۔ 2004 میں کلیات بھی شائع ہوئی۔
شکیب جلالی کے کچھ شعر
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے
آکے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر
ابھی ارمان کچھ باقی ہیں دل میں
مجھے پھر آزمایا جا رہا ہے
اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی
اس شور تلاطم میں کوئی کس کو پکارے
کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی
ایک اپنا دیا جلانے کو
تم نے لاکھوں دیے بجھائے ہیں
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا
بس ایک رات ٹھہرنا ہے کیا گلہ کیجے
مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت
بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے
ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں
پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
پھر آئنے میں چوم لیا اپنے آپ کو
پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ
ایک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے
جو موتیوں کی طلب نے کبھی اداس کیا
تو ہم بھی راہ سے کنکر سمیٹ لائے بہت
جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ
جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا
رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا
پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں
سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا
لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ
کام جس مہربان سے نکلا
لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو
زخم گہرا ہی سہی زخم ہے بھر جائے گا
مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا
میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا
نہ اتنی تیز چلے سرپھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے
وقت نے یہ کہا ہے رک رک کر
آج کے دوست کل کے بیگانے
وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے
وہ الوداع کا منظر وہ بھیگتی پلکیں
پس غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت
کوئی اس دل کا حال کیا جانے
ایک خواہش ہزار تہہ خانے
کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید
آئینہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں
کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
ڈوبے تھے گہری رات میں کالے ہوئے نہیں
کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے
آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں
یوں تو سارا چمن ہمارا ہے
پھول جتنے بھی ہیں پرائے ہیں
آکر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
نہ اتنی چلے، سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتہ دکھائی دیتا ہے
رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو
ملبوس خوشنما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر