آج نامور شاعر ، افسانہ نگار اور صحافی احمد ندیم قاسمی کی 18 ویں برسی ہے۔انہوں نے 10 جولائی 2006 کو 90 برس کی عمر میں وفات پائی.
احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916 کو وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ کے ایک اعوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ احمد شاہ نام رکھا گیا۔ والد کا نام پیر غلام نبی تھا ۔ احمد شاہ صرف 7 سال کے تھے کہ والد انتقال کر گئے ۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ 1920ء میں انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا۔ اس کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے۔ وہاں مذہبی، عملی اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔ 1921ء – 1925ء میں گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل اسکول کیمبل پور (اٹک) میں تعلیم پائی۔ 1930ء-1931ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور 1931ء صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہوگئے جہاں سے 1935ء میں بی اے کیا۔
بہاولپور سے لاہور پہنچے تو اختر شیرانی سے ملاقات ہوئی۔ وہ انہیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی کی۔ ان کی ہم نشینی اور بعد میں ایکسائز کی ملازمت کے باوجود قاسمی صاحب نے کبھی پی نہیں ۔
لاہور میں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنہوں نے انہیں اپنے بچوں کے رسالے پھول کی ادارت سونپ دی۔ ایک سال ادارت کی اور اس دوران بچوں کے لیے بہت سی نظمیں بھی لکھیں ۔
1936ء میں ریفارمز کمشنر لاہور کے دفتر میں بیس روپے ماہوار پر محرر ہوگئے اور 1937ء تک یہاں کام کیا. 41۔ 1939ء کے دوران ایکسائز سب انسپکٹر کے طور پر ملازمت کی۔1942ء میں مستعفی ہو کر تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی 1943ء میں ’’ادب لطیف‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے 1945ء – 48ء کے دوران ریڈیو پشاور سے بحیثیت سکرپٹ رائٹر وابستہ رہے تقسیم کے بعد ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور میں ملازم رہے۔ آزادی پر پشاور ریڈیو سے سب سے پہلے انہیں کا ترانہ ’’ پاکستان بنانے والے پاکستان مبارک ہو‘‘ نشر ہوا۔ 1948ء میں ریڈیو پاکستان کی ملازمت چھوڑ دی اور واپس لاہور چلے آئے یہاں انہوں نے ہاجرہ مسرور کے ساتھ مل کر ایک نئے ادبی رسالے ’’نقوش‘‘ کی بنیاد رکھی۔ مئی 1963ء میں حکیم حبیب اشعر کی معیت میں جریدہ ’’فنون‘‘ جاری کیا ۔ جس نے ایک طرح سے دبستان فنون کی شکل اختیار کرلی۔
قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتداء 1931ء میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ سیاست لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ بعد میں بھی 1934ء اور 1937ء کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ انقلاب لاہور اور زمیندار لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انہیں نوجوانی میں ہی شہرت حاصل ہوگئی۔
صحافتی سرگرمیاں
1941-45ء میں ہفت روزہ ’پھول‘
1943-45ء ’تہذیبِ نسواں‘ماہنامہ ادبِ لطیف
1947-48ء میں ماہنامہ سویرا (چار شمارے)
1950ء میں ماہنامہ ’’سحر‘‘ لاہور (ایک شمارہ)
1953-59ء میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور کی ادارت
1963ء سے ماہنامہ ’’فنون‘‘ کی ادارت
1952ء میں روزنامہ ’امروز‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ لکھتے رہے
روزنامہ ’امروز‘ لاہور اخبار کے ایڈیٹر بن جانے پر کالم ’’پنج دریا‘‘ بھی لکھتے رہے۔
1959ء میں امروز سے الگ ہونے پر روزنامہ ہلالِ پاکستان میں ’’موج در موج‘‘ اور ’پنج دریا‘ کے نام سے فکاہیہ کالم نویسی۔
1964-70ء میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ کی شروعات کی مگر پنج دریا کے بجائے نام ’’عنقا‘‘ رکھ لیا۔
1970ء کے دوران ‘‘روزنامہ جنگ‘‘ کراچی میں کالم ’’لاہور، لاہور ہے۔‘‘
اپریل 1972ء میں دوبارہ امروز میں وہی کالم لکھنے لگے۔
1964ء سے امروز لاہور میں ادبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر ہر ہفتے مضامین لکھتے رہے۔
1936 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد قاسمی صاحب نے اس انجمن سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ وہ انجمن کے سکریٹری بھی رہے۔ اس کی وجہ سے دو مرتبہ جیل بھی گئے لیکن آگے چل کر جب انجمن شدت پسندی کا شکار ہوئی تو قاسمی صاحب نے اس کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن عرصے بعد جب انجمن کا احیأ ہوا تو اس کی نشستوں میں شریک ہوتے رہے۔
افسانوی مجموعے
چوپال (دار الاشاعت پنجاب، لاہور 1939)
بگولے (مکتبہ اردو، لاہور 1941)
طلوع و غروب (مکتبہ اردو، لاہور 1942)
گرداب (ادارہ اشاعت اردو، حیدر آباد دکن1943)
سیلاب (ادارہ اشاعت اردو، حیدر آباد دکن 1943)
آنچل(ادارہ فروغ اردو، لاہور 1944)
آبلے (ادارہ فروغِ اردو، لاہور 1946)
آس پاس (مکتبہ فسانہ خواں، لاہور 1948)
درو دیوار (مکتبہ اردو، لاہور 1948)
سناٹا (نیا ادارہ، لاہور 1952)
بازارِ حیات (ادارہ فروغِ اردو، لاہور 1959)
برگِ حنا (ناشرین، لاہور 1959)
سیلاب و گرداب (مکتبہ کارواں، لاہور 1961)
گھر سے گھر تک (راول کتاب گھر، راولپنڈی 1963)
کپاس کا پھول (مکتبہ فنون، لاہور 1973)
نیلا پتھر (غالب پبلشرز، لاہور 1980)
کوہ پیما (اساطیر، لاہور 1995)
شاعری
دھڑکنیں (قطعات- اردو اکیڈمی، لاہور 1942)
رِم جھم (قطعات و رباعیات- ادارہ فروغِ اردو، لاہور 1944)
جلال و جمال (شاعری- نیا ادارہ، لاہور 1946)
شعلۂ گُل (قومی دار الاشاعت، لاہور 1953)
دشتِ وفا (کتاب نما، لاہور 1963)
محیط (التحریر، لاہور 1976)
دوام (مطبوعات، لاہور 1979)
لوح و خاک (اساطیر، لاہور 1988)
تحقیق و تنقید
تہذیب و فن (پاکستان فاؤنڈیشن، لاہور 1975)
ادب اور تعلیم کے رشتے (التحریر، لاہور 1974)
علامہ محمد اقبال
ترتیب و ترجمہ
انگڑائیاں (مرد افسانہ نگاروں کا انتخاب- ادارہ اشاعت اردو، حیدر آباد دکن 1944)
نقوشِ لطیف (خواتین افسانہ نگاروں کا انتخاب- ادارہ اشاعتِ اردو، حیدر آباد دکن 1944)
پاکستان کی لوک کہانیاں (از میریلن سرچ- ترجمہ، شیخ علی اینڈ سنز، لاہور)
کیسر کیاری (مضامین، ڈرامے، تراجم- مکتبہ شعر و ادب، لاہور 1944)
منٹو کے خطوط بنام احمد ندیم قاسمی (ترتیب- کتاب نما، لاہور 1966)
نذرِ حمید احمد خاں (ترتیب- مجلس ترقی ادب، لاہور 1977) میرے ہم سفر
بچوں کا ادب
تین ناٹک (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944)
دوستوں کی کہانیاں (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944)
نئی نویلی کہانیاں (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944)
قاسمی صاحب سے متعلق کتابیں اور خصوصی نمبر:
ندیم کی شاعری اور شخصیت (تحقیق) جمیل ملک۔
احمد ندیم قاسمی کے بہترین افسانے، مرتب مظفر علی سید
ندیم نامہ، مرتب محمد طفیل، بشیر موجد مجلسِ ارباب فن، لاہور 1974
مٹی کا سمندر، مرتب ضیا ساجد مکتبہ القریش، لاہور 1991
احمد ندیم قاسمی، ایک لیجنڈ- از شکیل الرحمٰن، اساطیر، لاہور
ندیم نمبر، مرتب صہبا لکھنوی ماہنامہ افکار، کراچی 1976
احمد ندیم قاسمی: شخصیت اور فن، مرتب: نند کشور وکرم۔ عالمی اردو ادب، دہلی 1996۔
ہندی میں ’’اردو کہانی کار احمد ندیم قاسمی‘‘ مرتب نند کشور وکرم اندر پرستھہ پرکاشن دہلی۔
اس کے علاوہ انگریزی، روسی، چینی،جاپانی، ہندی، پنجابی، بنگلہ، سندھی، گجراتی مراٹھی اور فارسی وغیرہ متعدد زبانوں میں کہانیوں اور شاعری کے تراجم۔
اعزازات و انعامات
آدم جی ادبی انعام برائے دشتِ وفا (شاعری۔1963)
آدم جی ادبی انعام برائے محیط (شاعری۔ 1976)
آدم جی ادبی انعام برائے دوام (شاعری۔ 1979)
صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی (1968)
ستارۂ امتیاز (1980)
عالمی فروغِ اردو ادب، دوحہ، قطر۔
احمد ندیم قاسمی کے کچھہ اشعار ۔۔۔
کون کہتا ہے موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھہ
انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا
دیکھا اسے پلٹ کے تو جھونکا ہوا کا تھا
اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
کہ فرشتہ مرا معیار نہیں ہو سکتا
اپنی پوشاک سے ہشیار کہ خدام قدیم
دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے
اے خدا اب ترے فردوس پہ میرا حق ہے
تو نے اس دور کے دوزخ میں جلایا ہے مجھے
یاد آئے تیرے پیکر کے خطوط
اپنی کوتاہی فن یاد آئی
چاند جب دور افق پر ڈوبا
تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی
میں شہر دل سے نکلا ہوں سب آوازوں کو دفنا کر
ندیم اب کون دیتا ہے صدا آہستہ آہستہ
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جِسے اندیشۂ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
اگر گِروں تو کچھہ اس طرح سربلند گِروں
کہ مار کر، مرادشمن مجھے سلامی دے
وہ اعتماد ہے مجھہ کو سرشتِ انساں پر
کسی بھی شہر میں جاؤں، غریبِ شہر نہیں
یہ فقط میرا تخلص ہی نہیں ہے کہ ندیم
میرا کردار کا کردار ہے اور نام کا نام
دشمن بھی جو چاہے تو مری چھاؤں میں بیٹھے
مَیں ایک گھنا پیڑ سرِراہ گزر ہوں
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اِذنِ کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
مَیں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں
مرے ہمراہ دریا جا رہا ہے
مجھہ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
مَیں تو شامل ہوں محبت کے گنہگاروں میں
⬇️ یہ غزل قاسمی صاحب نے مارچ 1971 میں مجھے ایس ای کالج میگزین ’’نخلستانِ ادب‘‘ کیلئے عطا فرمائی۔ 1935 میں وہ خود بھی اس مجلے کے مدیر رہے تھے ۔