مفتی ممتاز حسین جو دنیائے ادب میں ممتاز مفتی کے نام سے جانے گئے، 11 ستمبر 1905 کو بٹالہ ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مفتی محمد حسین تھا۔
ممتاز مفتی نے میٹرک ڈیرہ غازی خان سے ، ایف اے امرتسر سے اور بی ۔اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔ 1932سے 1945 تک درس و تدریس سے وابستہ رہے۔آل انڈیا ریڈیو سے بھی منسلک رہے۔ بمبئی میں فلم انڈسٹری میں ملازمت کی۔1951میں حکومت پاکستان کی انفارمیشن سروس سے وابستہ رہے اور مختلف عہدوں پر فائز رہ کر 1962میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ان کا ناول علی پور کاایلی بہت مشہور ہے۔ پہلا افسانوی مجموعہ ان کہی ہے۔ شخصیات کے خاکے پیاز کے چھلکے بھی معروف ہے۔ پہلا افسانہ جھکی جھکی آنکھیں 1936میں شائع ہوا۔اشفاق احمد کے بقول مفتی تقسیم ہند سے پہلےغیر معروف ادب کے انتہائی دلدادہ تھے، یہاں تک کہ وہ اکثر سویڈن کے کئی غیرمعروف ادیبوں کے ناول پڑھتے نظر آتےتھے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن میں “ان کہی“، “گہماگہمی“، “چپ“، “روغنی پتلے“، اور “سمے کا بندھن“، "گڑیا گھر” اور "اسمارائیں” شامل ہیں۔ ان سب کا مجموعہ یا کلیات” مفتیانے” کے نام سے شائع ہوا. “علی پور کا ایلی“ اور “الکھہ نگری“ سوانحی ناول میں شمار ہو تے ہیں۔ جبکہ “ہند یاترا“، “لبیک“ جیسے سفر نامے بھی تحریر کیے اور خاکہ نگاری میں “اوکھے لوگ“، “پیاز کے چھلکے“ “تلاش“ ، ’’اور اوکھے لوگ‘‘، ’’اوکھے اولڑے ‘‘جیسی کتابوں کے خالق ہیں۔ ستارہ امتیاز اور منشی پریم چند ایوارڈ جیسے اعزازات سے نوازے گئے۔ان کی وفات27 اکتوبر 1995ء کو ہوئی ۔
پروفیسر احمد عقیل روبی ، اپنی کتاب ”علی پور کا مفتی “ میں لکھتے ہیں کہ ممتاز مفتی کی محفل میں ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ ممتاز مفتی نے کہا،” یہ لڑکی مجھ پر پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہے مگر یونیورسٹی والے اسے اجازت نہیں دیتے، ان کا کہنا ہے پہلے مفتی کو مر جانے دو اس کے بعد اس پر پی ایچ ڈی کی اجازت ملے گی”. پھر مسکراتے ہوئے کہا، اسے کہا ہے یونیورسٹی والوں سے کہہ دو مفتی کو مارنے کی کوشش کر رہی ہوں جلد ہی رخصت ہو جائے گا“۔
وہ خاتون ڈاکٹر نجیبہ عارف تھیں، جنہوں نے بالآخر ممتاز مفتی پر پی ایچ ڈی کا مقالہ2003 میں مکمل کیا۔ اس مقالے کو الفیصل پبلشرز نے ”ممتاز مفتی کا فکری ارتقا“ کے عنوان سے شائع کیا۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف کہتی ہیں
"مجھے ممتاز مفتی کی تحریروں میں فکری اعتبار سے واضح ارتقا اور تبدیلی نظر آتی ہے۔ پہلے دور کی تحریروں کو دیکھا جائے تو ان میں جنس اور انسانی نفسیات کا مطالعہ غالب نظر آتا ہے۔وہ انسان کے باطنی اسرار اور اس کی شخصیت کی بھول بھلیاں کی تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کی ابتدائی کہانیاں فحش ہیں، مگر ایسی فحاشی تو خود زندگی کے اندر موجود ہے۔ انھوں نے ان معاشرتی ٹیبوز کو توڑنا چاہا ہے جو انسانی ذات کی تفہیم میں حائل ہوتے ہیں۔ دوسرے دور میں مفتی صاحب کی توجہ کا مرکز ہند اسلامی تہذیب ہے جس کا وہ احیا چاہتے ہیں۔جدید طرز زندگی اور معاشرے پر اس کے اثرات کا موضوع ہمیں ان کے کئی افسانوں میں نظر آتا ہے ۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ممتاز مفتی عورتوں کی آزادی کے حامی تھے مگر ان کے ہاں عورت کا تصور نہایت روایتی ہے۔اس معاملے میں وہ اپنے بچپن کے تجربات و مشاہدات کے اثر سے رہا نہیں ہوئے اور آخر تک عورتوں کے بارے میں ایک مخصوص نقطہ نظر کے حامی رہے جو قدرے محدود بھی تھا۔ تاہم تیسرے دور میں تصوف ان کا نمایاں ترین موضوع بن گیا۔مثلاً ”سمے کا بندھن“ اور ”ان پورنی“، ایسی کہانیاں ہیں جن میں بدن سے روح تک کا سفر دکھایا گیا ہے”