لاہور کے ایبٹ روڈ پر واقع میٹروپول سینما بھی قصہ پارینہ بن گیا۔

ماضی کے اوراق کنگھالیں تو 70کی دہائی میں جب فلم اور سینما انڈسٹری کا عروج تھا اس دورمیں لاہور کے مال روڈ پر جنرل پوسٹ آفس سے ذرا آگے YMCA,کے ساتھ ولکن کمپنی کا آفس تھا یہ سینما گھر ولکن کمپنی کے مالک شیخ ااختر نے بنایا تھا جو ایبٹ روڈ کا جدید ترین اور خوبصورت سینما گھر تھا۔اس سینما کے پہلے مینیجر اداکار نعمان اعجاز کے والد اعجاز صاحب تھے۔یہ وہ دور تھا جب سینما کا ٹکٹ سٹال5روپیہ اور گیلری 10 روپیہ ہوا کرتا تھا۔میتروپول سینما نے بڑے نشیب و فراز دیکھے۔لاہور میں یہ خواتین کا فیورٹ سینما تھا۔۔اس کے سٹال۔گیلری اور باکس اکثر ہاؤس فل رہے۔خود مجھے بارہا میٹروپول میں فلمیں دیکھنے کا موقع ملا۔میٹروپول کے دیگر مینیجرزمیں زیدی صاحب سے بھی ہمارے خوشگواری تعلقات رہے۔بعد میں قیصر ثناءاللہ خان نے جی ایم کی سیٹ سنبھالی تو میٹروپول شوبز صحافیوں کا گڑھ بن گیا۔بلکہ اسے منی پریس کلب بھی کہہ سکتے ہیں۔قیصر ثنا اللہ خان صحافیوں کی مدد سے دوستوں کی پذیرائی اور دشمنوں کو شکست دینے کیلئے تمام تر منصوبہ بندی یہیں کیا کرتے تھے۔مجھ سمیت شوبز کے دیگر صحافی ہرمہینہ اس سینما مین نیا اے سی نصب کرنے اور نیا فرنیچر۔جدید ساؤنڈ سسٹم کی خبریں مسلسل شائع کرتے رہتے تھے۔میٹروپول کو کس کی نظر کھاگئی ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔اس سینما کے مالک شیخ اختر صاحب کا جوان بیٹا ملتان ایئرپورٹ پر پی آئی اے طیارہ کے حادثہ میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔جوان اولاد کی موت نے شیخ اختر کی کمر توڑدی وہ زیادہ عرصہ یہ دکھ برداشت نہ کرسکے اور بالآخر وہ بھی موت کو گلے لگا کر بیٹے کے پاس پہنچ گئے ۔ان کے بعد بیگم مسرت اختر نے سینما کے معاملات سنبھالے اور اس سینما کو پھر سے چلانے کیلئے کافی کوششیں کیں لیکن فلم انڈسٹری کا زوال میٹروپول کی رونقیں بحال نہ کرسکا۔رفتہ رفتہ سینما کی روشنیاں ماند پڑتی گئیں ۔اس سینما کی بلڈنگ میں سینیر اداکار راشد محمود کا آفس بھی کافی عرصہ تک رہا۔۔پرانی فلموں کی ناکافی آمدن سے ملازمین کی تنخواہیں دینا بھیشکل ہوگیا۔پھر بےروزگاری کا سلسلہ طویل ہونے لگا تو اکثر ملازمین کو قیصر ثنااللہ نے تماثیل میں کام پر لگالیا۔۔میٹروپول میں پارکنگ سٹینڈ بن گیا۔پھر مکینک نے ورکشاپ بناکر ڈیرے ڈال لیے۔پہلے اس سینما کی سکرین توڑ کر فلم بینوں کے دل توڑے گئے پھر اس کا فرنیچر نکال کر اسے ویران کیا گیا اور آج یہ عالم ہے کہ اس ثقافتی ورثہ کے درودیوار منہدم کردیے گیے ہیں اور میٹروپول سینما کا یہ ملبہ چیخ چیخ کر پکار رہا ہے۔دیکھومجھے کہ نشان عبرت ہوںی ۔۔۔۔۔میتروپول پر جن سپرہٹ فلمون کی نمائش کی گئی ان میں سیدنور کی ڈاکورانی،مجاجن۔ریما کی کوئی تجھ سا کہاں اور عجب گل کی فلم کھولے ہوئے ہو تم کہاں سمیت وحیدہ کلب کی جانب سے وحید مراد کی سالانہ برسی کے موقعہ پر دکھائی جانے والی وحید مراد کی یادگار فلمیں بھی شامل ہیں۔۔۔

تحریر اے آر گل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button