نیرہ نور 3 نومبر 1950 کو آسام کے شہر گوہاٹی میں پیدا ہوئی تھیں۔ انکا خاندان تاجر پیشہ تھا جو امرتسر سے گوہاٹی جا بسا تھا۔ نیرہ کے والد میاں نور احمد مسلم لیگ کے فعال رکن تھے. قائد اعظم گوہاٹی میں ان کے گھر ٹھہرے تھے. قائد اعظم کا بستر اور استعمال میں آنے والی دوسری اشیاء نیرہ کی والدہ نے محفوظ رکھی ہوئی ہیں. نیرہ کی والدہ اور بھائی بہن 1957/58 میں پاکستان آئے۔ والد جائداد کی وجہ سے گوہاٹی رہے اور 1993 میں آئے.
نیرہ نے موسیقی کی کوئی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن بچپن میں وہ کملا جھریا اور کانن دیوی کے مذہبی گیتوں (بھجن) اور بیگم اختر (اختری بائی فیض آبادی) کی ٹھمری اور غزل گائیکی سے بہت متاثر تھیں۔
نیرہ کو دریافت کرنے کا سہرا "ہم دیکھیں گے” فیم موسیقار پروفیسر اسرار کے سر ہے جنہوں نے 1968 میں انہیں نیشنل کالج آف آرٹس کے سالانہ عشائیہ میں گاتے سنا۔ وہ این سی اے میں ٹیکسٹائل ڈیزائن کی طالبہ تھیں. پروفیسر اسرار انہیں ریڈیو پاکستان لے گئے اور نوجوانوں /طلباء کے پروگرام میں موقع دلایا. نیرہ کے آگے بڑھنے میں پروفیسر اسرار کا بہت ہاتھ ہے.
1969 میں ریڈیو پاکستان میں نئی آوازوں کیلئے آڈیشن ہوئے . منصفین روشن آراء بیگم، استاد سلامت علی خان اور استاد امانت علی خان تھے. نیرہ نے لتا کا گانا چلو سجنا جہاں تک گھٹا چلے. روشن آراء بیگم نے بہت پسند کیا اور کہا "ماشاءاللہ تمہارے گلے میں بہت مرکیاں ہیں، کون استاد ہیں؟” نیرہ نے جواب دیا، "ہمارے گھر میں ایک گراموفون تھا، جس پر میں کملا جھریا، کانن دیوی اور بیگم اختر کے ریکارڈ باربار سنتی اور ان کے ساتھ ساتھ گانے کی کوشش کرتی تھی، جو کچھ سیکھی ہوں، سن سن کر سیکھی ہوں.
نیرہ کو آڈیشن کے بعد ریڈیو کیلئے approve کرلیا گیا. اس کے بعد وہ ہر صبح ڈیڑھ گھنٹہ ریاض کرتی رہیں.
1971میں نیرہ نے پاکستان ٹیلی ویژن پر شعیب ہاشمی کے پروگرامز اکڑ بکڑ، ٹال مٹول اور سچ گپ سے آغاز کیا ۔ بعد میں انہوں نے غالب، ناصر کاظمی، ابن انشاء اور فیض احمد فیض اور بہزاد لکھنوی کا کلام نہایت دلکش انداز سے گایا۔نیرہ نے ارشد محمود کی کمپوزیشن میں فیض کا جو کلام گایا، وہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے.
ٹی وی کے ذریعے فلم والوں کی نظر میں آئیں تو انہوں نے بھی رابطہ کیا اور پلے بیک سنگنگ کیلئے تیار کرلیا.
نیرہ کے پہلے فلمی گانے”تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، پلکیں بچھادوں، ساری عمر بتادوں” نے ہی دھوم مچادی، . فلم گھرانہ کا یہ گیت کلیم عثمانی نے لکھا اور موسیقی ایم اشرف کی تھی. 1973 میں ہی فلم "آس” کیلئے مسرور انور کا لکھا گیت "بول ری گڑیا بول ذرا، چپ رہتے تجھے برسوں بیتے” بھی بہت مقبول ہوا. اس کی موسیقی نثار بزمی نے دی تھی. اس کے بعد اسی سال فلم پردے میں رہنے دو کیلئے مسعود رانا کے ساتھ دوگانا، جانے سے پہلے اتنا بتادو پھر کب ملوگی، گایا. پھر یہ سلسلہ چل پڑا.
گیارہ سال پہلے انہوں نے باقاعدہ نہ گانے کا اعلان کیا تھا.
ان کے کچھ معروف نغمے، غزلیں اور گیت :
ہر چند سہارا ہے تیرے پیار کا دل کو
کبھی ہم خوبصورت تھے
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
اے جذبہٗ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جلے تو جلاؤ گوری ، پیت کا الاؤ گوری، ابھی نہ بجھاؤ گوری
تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں پلکیں بچھادوں
وہ جو ہم میں قرار تھا
چلو پھر سے اجنبی ہو جائیں ہم دونوں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
او دل توڑ کے جانے والے
وطن کی مٹی گواہ رہنا
روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں پیا، بولونا
احمد ندیم قاسمی کہتے تھے، آزاد نظم کو نیرہ نور سے بہتر کوئی نہیں گا سکتا، وہ شاعری اور اس کے مفہوم سے پورا انصاف کرتی ہیں.
نیرہ نور انتہائی سادہ، کم گو اور شرمیلی خاتون تھیں۔
انہیں ان کی منفرد گائیکی پر ’بلبل پاکستان‘ کہا جاتا تھا۔ 1973 میں نگار ایوارڈ اور 2006 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ دیا گیا. سالانہ آل پاکستان میوزک کانفرنسز میں انہیں تین بار گولڈ میڈل دئیے گئے.نیرہ نور کی شادی اپنے کلاس فیلو شہر یار زیدی سے ہوئی، وہ بھی گلوکار رہے، بعد میں ٹی وی ڈراموں میں اداکاری بھی کی. ان کے بیٹے جعفر زیدی اور ناد علی زیدی بھی عمدہ گاتے ہیں.عابد علی بیگ صاحب یاد دلاتے ہیں کہ شعیب ہاشمی کے پروگراموں میں ایک سادہ سی لڑکی چادر اوڑھ کر فرش پر بیٹھ کر گیت یا غزل گایا کرتی تھی اس کی آواز و انداز نے لوگوں کی توجہ فوراً حاصل کرلی۔ اس نے اتنی بار اسی انداز میں فرش پر بیٹھ کر اور چادر میں لپٹ کر گایا کہ چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں کہ خدانخواستہ کوئی معذوری اس کا سبب ہے۔بہت دنوں کے بعد وہ لڑکی کسی پروگرام میں کھڑے ہوکر گاتی ہوئی نظر آئی تو دیکھنے والوں کو خوش گوار حیرت ہوئی.
خواجہ نجم الحسن نے اپنے پروگراموں سخن ور، انداز بیان اور، میری پسند اور دنیا میری جواں ہے کیلئے نیرہ سے کافی کچھ گوایا. بیشتر کے موسیقار میاں شہر یار تھے. ڈاکٹر انوار احمد فرماتے ہیں : خورشید انور نے کہا تھا ” نیرہ میں تو تمہاری آواز کی تلاش میں برسوں سے تھا” ( انہیں نورجہاں کی مشروط گائیکی کے حصار کو توڑنے کے لئے ناہید نیازی ، مالا اور زبیدہ بیگم کو گوانا پڑا) اور پھر کلامِ فیض تو ٹینا سے پہلے نیرہ نے جی جان سے گایا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ خورشید انور ، فیض احمد فیض جنت میں ہیں تو نیرہ بھی تو وہاں ہوں گی آج سے.
Wow, wonderful blog layout! How long have you ever been running a blog for? you made blogging glance easy. The full glance of your site is great, as smartly as the content!