جس کی گائی دو غزلیں آج بھی ریڈیو کے فرمائشی پروگراموں میں شامل ہوتی ہیں.
بچپن میں بڑوں کی گفتگو میں بارہا یہ سنا کہ اسے سہگل نے زہر دے کر مروایا. کوئی کہتا کہ نہیں، اسے بس کسی کی نظر لگ گئی.
ہمیں اس وقت تک سہگل کا بھی پتہ نہیں تھا.
کچھ عرصے بعد سہگل کا بھی پتہ چلا اور ماسٹر مدن کا بھی. لیکن دل یہ کبھی نہیں مانا کہ اس بچے سے سہگل کو اتنا خطرہ محسوس ہوا ہوگا.
ماسٹر مدن 28دسمبر 1927کو جالندھر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے. ان کے والد سردار امر سنگھ محکمہ تعلیم میں تھے اور موسیقی سے دلچسپی رکھتے تھے. ماسٹر مدن کے بھائی بہن بھی موسیقی میں کافی دلچسپی رکھتے تھے. گھر میں موسیقی کا ماحول ہونے کی وجہ سے ماسٹر مدن محض دوسال کی عمر میں اپنی 14سالہ بڑی بہن سے گانا سیکھنے لگے۔ بعد میں انہوں نے موسیقار پنڈت امر ناتھ (حسن لال بھگت رام کے بڑے بھائی) سے بھی موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ ہوا یوں کہ مدن کے دونوں بڑے بھائی پنڈت امر ناتھ سے سیکھ رہے تھے. ننھا مدن بھی ساتھ بیٹھا ہوتا. ایک دن موہن نے غلطی کی تو پنڈت جی نے غصے کا اظہار کیا. اس پر مدن نے کہا، پنڈت جی، میں سناؤں، اور پھر بالکل درست سنادیا. پنڈت جی حیران بھی ہوئے اور خوش بھی اور اس کے بعد مدن کی تربیت بھی شروع کردی.
مدن کی آواز بہت سریلی تھی. ان دنوں مشہور گلوکار کندن لال سہگل شملہ میں ریمنگٹن ٹائپ رائٹر کمپنی میں کام کرتے تھے اور وہ ماسٹر مدن کے گھر اکثر آیا کرتے تھے اور ان کے بڑے بھائی کے ساتھ موسیقی کا ریاض کیا کرتے تھے جسے ماسٹر مدن بھی سنا کرتے تھے ۔
صرف ساڑھے تین یا چار برس کی عمر میں مدن نے دھرم پور میں پہلی پبلک پرفارمنس دی۔ انھوں نے راگ در پد میں گانا سنایا اور سامعین حیران رہ گئے. سنگیت کی اس محفل کے اختتام پر انھیں سونے کی انگوٹھی اور گولڈ میڈل دیا گیا۔ ہندوستان کے تمام بڑے اخباروں میں ان کی تصاویر شائع ہوئیں اور وہ ایک ”ننھے منے لیجنڈ” بن گئے ۔ اب ہر جگہ ان کی تصاویر کے پوسٹر لگے نظر آتے ۔پورے ملک میں ماسٹر مدن کے نام کا ڈنکا بجنے لگا. اخبار” دی ہندو” نے ماسٹر مدن کا فوٹو پہلے صفحہ پر لگایا۔ اس کے بعد تو ماسٹر مدن کی شہرت اور مقبولیت ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی اور انہیں جگہ جگہ سے موسیقی کے پروگراموں کی دعوتیں آنے لگیں ۔
ماسٹر مدن اپنے بھائی کے ساتھ بھی پروگراموں میں حصہ لینے جایا کرتے تھے ۔ اپنے شہر میں منعقدہ پروگراموں میں حصہ لینے کے لئے انہیں 80 روپے ملتے اور شہر سے باہر پروگرام پر 250 روپے ملا کرتے تھے. وہ ہمیشہ گرو نانک کی تصویر سامنے رکھ کر گاتے. انہیں جو میڈل ملے ، ان کی بہن شانتی کسی محفل میں جاتے ہوئے وہ تمام ان کے گلے میں ڈالنا نہ بھولتی.
ماسٹر مدن کی پہچان بننے والی ساغر نظامی کی غزلیں
یوں نہ رہ رہ کر ہمیں ترسائیے
اور
حیرت سے تک رہا ہے…
جب ہز ماسٹرز وائس والوں نے ریکارڈ کیں تو ان کی عمر صرف آٹھ برس تھی.
اب ان کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل چکی تھی. آل انڈیا ریڈیو نے بھی انہیں مدعو کیا.
ماسٹر مدن کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 1940 میں گاندھی جی کا شملہ میں جلسہ تھا۔ اتفاق سے اسی دن شملہ میں ماسٹر مدن کے گانے کا پروگرام بھی پہلے سے تھا۔ گاندھی کی تقریر کے دوران پنڈال خاصا خالی تھا۔ گاندھی جی کو وجہ معلوم ہوگئی لیکن انہوں نے اس کا برا نہیں مانا، بلکہ بعد میں ایک موقع پر ماسٹر مدن کو قیمتی تحائف بھی دئیے۔
پھر وہ وقت آیا کہ مدن اکثر تھکن اور ذہنی دباؤ کی شکایت کرتے۔ بخار بھی رہنے لگا. طبی معائنے سے پتہ چلا کہ انہیں آہستہ آہستہ اثر کرنے والا زہر دیا گیا ہے۔ اور پھر کلکتہ میں ایک محفل میں گاتے ہوئے ان پر کھانسی کا دورہ پڑا اور اس کے بعد پھر ان کی آواز بحال نہ ہوسکی۔
5 جون 1942 کو چودہ برس پانچ مہینے اور گیارہ دن کی عمر میں یہ معصوم گلوکار فوت ہو گیا اور کہا جانے لگا کہ کسی حاسد گلوکار نے اسے دودھ میں زہر ملا کر پلا دیا تھا۔ ایک عرصے تک سہگل کا نام لیا جاتا رہا. ایک افواہ یہ پھیلی کہ انبالہ میں ایک گلوکارہ نے پان میں کچھ کھلادیا. کئی لوگوں نے کہا کلکتے کی محفل میں ایک شخص نے پانی میں پارہ ڈال کے پلادیا.
لیکن زیڈ اے بخاری اور کچھ دوسرے بزرگوں کو یقین تھا کہ وہ اپنے ہی بھائیوں کے حسد کا شکار ہوا. جو اس کی گائیکی، شہرت، انعامات اور دولت برداشت نہ کر سکے. بڑے ہونے کے باوجود اب پوسٹروں پر ان کا نام چھوٹا اور مدن کا بڑا چھپنے لگا تھا. اکثر صرف مدن کی تصویر چھپتی.
عرصے تک ماسٹر مدن کی گائی ساغر نظامی کی دو غزلوں کا ریکارڈ ہی میسر رہا، لیکن پھر ماسٹر مدن کی گائی ہوئی دو مزید غزلوں، چار اردو اور دو پنجابی گیتوں کے ریکارڈ بھی ڈھونڈ نکالے گئے ۔ ایک دو کے سوا باقی تمام یو ٹیوب پر موجود ہیں.
ماسٹر مدن کے 8 ریکارڈ :
غزل
یوں نہ رہ رہ کر ہمیں ترسائیے
حیرت سے تک رہا ہے
گوری گوری بیاں
من کی من
بھجن
موری بنتی مانو کانھا رے
چیتنا ہے تو چیت لے
پنجابی گیت
باغاں وچ
راوی دے پرلے کنڈھے وے مترا