اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر پروفیسر شہرت بخاری کی آج 23 ویں برسی ہے

ہم کوئی نجومی ہیں، وقت ہی بتائے گا

کون یاد رکھے گا ، کون بھول جائے گا

 

اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر پروفیسر شہرت بخاری کی آج 23 ویں برسی ہے۔

شہرت بخاری کا اصل نام سید محمد انور تھا۔ 2 دسمبر 1925 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ اردو اور فارسی میں امتیازی حیثیت سے ایم اے کیا۔ عملی زندگی کا آغاز مجلسِ زبانِ دفتری سے کیا ، پھر تدریس کی طرف آئے۔ اسلامیہ کالج لاہور کے صدر شعبۂ اردو و فارسی رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا۔

 

شاعری میں پہلے نرگس تخلص تھا۔ احسان دانش سے تلمذ حاصل ہوا تو ان کے مشورے پر شہرت تخلص اختیار کیا۔ ۔حلقۂ اربابِ ذوق کے اہم رکن تھے۔ حلقہ اربابِ ذوق میں جب نوجوانوں نےغمِ دوراں کا ذکر کچھ زیادہ زور شور سے شروع کیا تو کچھہ بزرگوں نے اسے سیاست قرار دیا ، ۔حلقے پر سیاسی کا لیبل لگایا اور الگ سے حلقہ اربابِ ذوق (ادبی) بنا لیا۔ سیاست سے نفور کے باعث شہرت صاحب بھی اس میں پیش پیش تھے لیکن پھر ضیاع الحق کےدورِ جبر میں کسی بھی حساس شخص کیلئے سیاست سے لا تعلق رہنا ممکن نہ رہا توشہرت صاحب بھی سیاست میں ایسے آئے کہ جلا وطن بھی ہونا پڑا۔

 

شہرت صاحب کہتے تھے کہ ان کی اہلیہ فرخندہ بخاری انہیں سیاست میں لائیں ۔ دراصل فرخندہ صاحبہ کے بھائی خواجہ افتخار ایڈووکیٹ سرگرم سیاسی اور ٹریڈ یونین کارکن تھے۔ مرزا ابراہیم کی ریلوے ورکرز یونین کے جنرل سیکریٹری بھی تھے۔ فرخندہ صاحبہ پر بھائی کا اثر تھا۔ مارشل لا کے دوران وہ جمہوری جدوجہد میں بہت سرگرم رہیں ۔ جب انہیں زبردستی طیارے میں ڈال کرجلا وطن کیا گیا تو ظاہر ہے خاندان متاثر ہوا۔ شہرت صاحب اس پر ناخوش تو ہوئے لیکن پھر وہ بھی برطانیہ چلے گئے اور ان کا گھر وہیں آباد ہوگیا۔ جمہوریت کی بحالی پر یہ خاندان وطن واپس آیا۔

شہرت صاحب کا 11 اکتوبر 2001 کو انتقال ہوا اور میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

 

شہرت صاحب کے اردو شعری مجموعے طاقِ ابرو ، دیوارِ گریہ ، اور شبِ آئینہ کے عنوان سے شائع ہوئے ، فارسی کلام کی کوئی خبر نہیں۔ ان کی صاحبزادی نے بھی لاعلمی ظاہر کی۔

 

کچھہ اشعار:

یا د رہ جاتی ہیں با تیں شہر ت

دن بہر حال گزر جاتے ہیں

 

شہرت ہے کہ اب وجہ پریشانی احباب

اٹھ جائے گا جس روز تو آئے گا بہت یاد

 

جو ہے وہ نکلنا چاہتا ہے

ہے ننگ مکان پر مکیں بھی

 

ہر چند سہارا ہے تیرے پیار کا دل کو

رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو

 

کسی کی روح کا بجھتا ہے شعلہ

کسی کی آنکھ میں جلتا ہے کاجل

 

ہر حال میں اتنے بھی بے بس نہ ہوئے تھے ہم

دلدل بھی نہیں لیکن نکلا بھی نہیں جاتا

 

کافر ہوں جو حسرت ہو جینے کی مگر شہرت

اس حال میں یاروں کو چھوڑا بھی نہیں جاتا

 

ہم کوئی نجومی ہیں ، وقت ہی بتائے گا

کون یاد رکھے گا کون بھول جائے گا

 

ہم بھی رکھتے ہیں زادِ راہِ عدم

اپنا غم ، تیرا غم ، جہان کا غم

 

کافر ھوں جو حسرت ھو جینے کی مگر شہرت

اس حال میں یاروں کو چھوڑا بھی نہیں جاتا

 

شُہرت بیانِ غم کےصِلے میں ہُوا نصیب

ایسا جوابِ تلخ کہ نشہ اُتر گیا

 

ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺑﺪﻝ ﺩﮮ ﯾﺎﺭﺏ

ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﮎ ﺧﻮﻥ ﮐﺎ ﺩﺭﯾﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ

 

ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﺎ ﺑﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺷﻌﻠﮧ

ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﺎﺟﻞ

 

ﮐﻞ ﭼﮭﭙﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﭘﻨﯽ

ﺁﺝ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﺩﺍﻍ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺗﯿﺮﮮ

 

ﮨﻢ ﭘﯿﺎﺱ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯﻋﺒﺚ ﺁﺱ ﻟﮕﺎﺋﯽ

ﺑﺮﺳﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﺎﺩﻝ ﺗﮭﺎ ﺑﺮﺳﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ

 

ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﻌﻠﮧ ﻧﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﺮﻕ

ﺷﮩﺮﺕؔ ﺑﮭﻼ ﺩﻝ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮩﻠﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ

 

ﺩﻝ ﻧﮯ ﮐﺲ ﻣﻨﺰﻝ ﺑﮯ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮭﮯ

ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﺧﻮﺩ ﻣﺮﮮ ﺳﺎﺋﮯ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮭﮯ

 

ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﺎ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮔﮭﭩﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ

ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺅ ﮔﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﺎﺩ

 

ﻣﻨﺰﻝ ﭘﮧ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮐﯿﺴﮯ

ﭘﺎﺅﮞ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﺭﺳﺘﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ

 

خود نوشت سوانح عمری ’’ کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ سے ایک اقتباس :

 

’’میں آئینہ کبھی نہیں دیکھتا، یہاں تک کہ شیو بھی بغیر ٓآئینے کے کرتا ہوں، بال بھی بغیر آئینے کے سنوارتا ہوں اور ٹائی بھی بغیر آئینے کے باندھتا ہوں۔ سبب تومجھے معلوم نہیں، بس اتنا جانتا ہوں کہ آئینہ میری زندگی میں وجود نہیں رکھتا۔ اتفاقاً کبھی سامنے آ جائے تو مجھے کچھہ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کوئی مجھہ سے سوال کرے کہ تیری ناک کیسی ہے؟ یا تیرے چہرے پر کوئی تل ہے ؟ تو میں اسے جواب نہ دے سکوں گا۔ پس میں اپنے آپ کو اپنے ذریعے دیکھتا ہوں آئینے کے ذریعے نہیں ،اسی طرح دنیا اور اہلِ دنیا کو بھی اپنے ذریعے دیکھتا ہوں، پرکھتا ہوں، کسی اور ذریعے سے نہیں “۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button