بلوچستان میں قوم پرستی کے عروج کا زمانہ تھا کہ بلوچستان کی قیادت نے کراچی کے اردو بولنے والے ایک استاد کو بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنانے کا فیصلہ کیا ۔ کوئٹہ پہنچنے پر استاد کا شاندار استقبال کیا گیا ۔ استقبال کرنے والوں میں گورنر غوث بخش بزنجو، وزیر اعلیٰ عطا اللہ مینگل اور وزیر تعلیم گل خاں نصیر شامل تھے۔
پھر جب وہ استاد کوئٹہ سے کراچی واپس روانہ ہوئے تو رخصت کرنے سارا شہر امنڈ آیا۔
یہ سراپا محبت استاد تھے پروفیسر کرار حسین
آج ان کی پچیسویں برسی ہے۔
کرار حسین 8 ستمبر، 1911ء کو کوٹہ ( راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت میرٹھ میں ہوئی۔ آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو)، ایم اے (انگریزی) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں وہ پہلے انڈین نیشنل کانگریس اور پھر خاکسار تحریک سے وابستہ ہوئے، اس کے بعد کسی اور جماعت کی طرف نہیں دیکھا ،میرٹھ سے خاکسار تحریک کا ترجمان اخبار "الامین” بھی جاری کیا تھا۔۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد انہوں نے تدریس کو اپنا شغل بنایا۔ میرٹھ کالج میں انگریزی کے لیکچرر ہوئے۔ وہ پاکستان نہیں آنا چاہتے تھے لیکن جنوری 1948 میں گاندھی جی کے قتل کے بعد مسلمانوں کے بارے میں کچھ ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں کہ ہندوستان بھر کے نمایاں اور مشہور مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ کرار صاحب بھی چند دن جیل رہے ۔ اس واقعہ کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔
اسلامیہ کالج کراچی کے بعد خیر پور، میر پور خاص، کوئٹہ کے گورنمنٹ کالجوں کے پرنسپل رہے۔ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے بعد کچھ عرصہ جامعہ ملیہ کراچی میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ بعد میں کراچی میں اسلامی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر رہے۔
کرارحسین اسلام میں ترقی پسند نقطۂ نظر رکھتے تھے ۔ ان کی تصانیف میں قرآن اور زندگی، مطالعہ قرآن اور غالب: سب اچھا کہیں جسے، سوالات و خیالات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تقاریر کے کئی مجموعے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ پروفیسر کرار حسین نے7 نومبر، 1999ء کو کراچی میں وفات پائی اور سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ جوہر حسین ، تاج حیدر ، شائستہ زیدی، اور صادقہ صلاح الدین ان کی قابل ِ فخر اولاد ہیں۔