جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے
’’ آسان نسخے‘‘ کے عنوان سے یہ نظم سیکڑوں بار چھپ چکی ہے ، لیکن اکثر شاعر کا نام غلط درج ہوتا ہے یا نامعلوم لکھ دیا جاتا ہے ۔ بے شمار حکیموں نے اسے خوش خط لکھوا کر اپنے مطب پر آویزاں کیا اور یہ نظم انہی کی مشہور ہوگئی۔ بعض نے اسے اپنے باپ دادا میں سے کسی کی بتایا۔ کئی ویڈیو سازوں نے حکیم سعید سے منسوب کردیا.
حقیقت یہ ہے کہ یہ نظم کسی حکیم کی نہیں، ایک بیوروکریٹ کی ہے۔ لیکن وہ محض بیورو کریٹ نہیں تھے ، اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر اورماہرِ اقبالیات تھے۔ اس نظم کی وجہ سے لوگ ان کے نام کے ساتھ حکیم بھی لکھنے لگے۔ حالانکہ انہوں نے یہ سب کچھ محض مطالعے اور سیانوں کی صحبت سے اخذ کیا۔ یہ نظم پہلی بار 1955 میں مجید لاہوری کے رسالے ’’نمکدان‘‘ میں شائع ہوئی۔ اصل نظم کے سولہ اشعار ہیں لیکن لوگ اضافے کرتے رہے ہیں۔
یہ شاعر محمد اسد خان، اسد ملتانی 13 دسمبر 1902 کو ملتان کے ایک علمی ادبی شیرانی پٹھان خاندان کے ہاں کڑی افغاناں میں اپنے آبائی گھر طاقِ اسحاق میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد غلام قادر خان ضلع ملتان کے دفتر میں کلرک تھے علمِ نجوم میں ملکہ حاصل تھا ۔ اسد ملتانی نے ابتدائی تعلیم چرچ مشن ہائی اسکول سے حاصل کی ۔جو بعد ازاں ایمرسن کالج بنا ۔1921 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔اُن دنوں علامہ اقبال وہاں فلسفے کے پروفیسر تھے۔اسی دور سے جناب اسد کا علامہ اقبال سے فکری اور روحانی تعلق پیدا ہوا ۔ کہتے تھے
شعر میں حضرتِ اقبال کا پیرو ہونا
ہے اگر جُرم تو بیشک اسد اقبالی ہے
علامہ اقبال نے انہیں ” افسر الشعراء” کا خطاب دیا۔
1922 میں اپنے بھائی محمد اکرم خان کے ساتھ مل کر ملتان سے روزنامہ’’ شمس ‘‘ کا اجراء کیا اور مطبع الشمس قائم کیا ( یہ دونوں بھائی شیرانی برادران کے نام سے مشہور تھے) ۔بعد میں انہوں نے” ندائے افغان” بھی جاری کیا۔ محمد اسد خان نے 1924 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ملتان میں اسلامیہ ہائی اسکول میں بطور انگلش ٹیچر مامور ہوئے۔
1926 میں انڈین پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہوکر وائسرائے ہند کے پولیٹیکل آفس میں سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوئے ۔قیام دہلی اور شملہ میں رہا۔ قیامِ پاکستان کے بعد دارالحکومت کراچی ممیں اسسٹنٹ سیکرٹری بنے اور ڈپٹی سیکرٹری خارجہ کے عہدے تک پہنچے ۔
1955 میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لے کر اپنے وطن ملتان واپس آکر علمی ادبی کام کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ اسی دوران دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے کا فیصلہ ہوا ۔عبوری دارالحکومت راولپنڈی تھا۔ راولپنڈی پہنچے لیکن صرف سترہ دن بعد 17 نومبر 1959 کو حرکت ِ قلب بند ہونےسے انتقال کرگئے ۔انہیں ملتان میں ان کے آبائی قبرستان حسن پروانہ میں سپردِ خاک کیا گیا ۔ان کے قریبی دوست مولانا احتشام الحق تھانوی کراچی سے خصوصی طور پر نمازِ جنازہ پڑھانے ملتان تشریف لائے۔
اسد ملتانی کی وفات کے وقت تین بیٹیاں اور دو بیٹے حیات تھے ۔اب سب کی وفات ہوچکی ہے ۔انکی منجھلی صاحبزادی محترمہ فرزانہ شیرانی اردو اور سرایئکی شاعرہ اور افسانہ نگار تھیں ۔ محض اڑتالیس برس کی عمر میں وفات پا گیئں۔ بہاولپور میں مدفن ہے ۔انکی بڑی صاحبزادی محترمہ شائستہ خانم شیرانی معروف ناول نگار مظہر کلیم کی اہلیہ تھیں۔
جنابِ اسد ملتانی کا کلام ان کی حیات میں یکجا نہیں ہو پایا البتہ دو کتابچے شایع ہوئے ۔ایک مرثیہ اقبال جو علامہ اقبال کی وفات پر شایع ہوا دوسرا تحفۂ حرم جو 1954 میں سفرِ حج پر لکھی جانے والی اردو اور سرائیکی نعتوں اور حمدیہ کلام پر مشتمل ہے ۔ ان کا کلام روزنامہ زمیندار ، معارف اعظم گڑھ ، طلوعِ اسلام ، فاران ، ماہِ نو اور نمکدان میں شائع ہوتا رہا ۔ شعری مجموعے مشارق اور تحفہ حرم ان کی وفات کے بعد مرتب کئے گئے۔کلیات ِ اسد ملتانی شوکت حسین بخاری اور اقبالیاتِ اسد ملتانی پروفیسر جعفر بلوچ نے مرتب کی۔ اسد ملتانی کے بارے میں اسد ملتانی۔۔ فکرو فن (پروفیسرعبدالباقی) اورمحمد اسد خان ملتانی ۔۔ فکرِ اقبال کا نمایندہ شاعر ( پروفیسر مختار ظفر ) اہم کتابیں ہیں۔
اسد ملتانی کے کچھ شعر
رہیں نہ رند یہ زاہد کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں
تو دیکھ ترے دل میں ہے سوز طلب کتنا
مت پوچھ دعاؤں میں یہ بے اثری کیوں ہے
اے گل جو بہار آئی ہے وقت خود آرائی
یہ رنگ جنوں کیسا یہ جامہ دری کیوں ہے
واعظ کوجو عادت ہے پیچیدہ بیانی کی
حیراں ہے کہ رندوں کی ہر بات کھری کیوں ہے
اسدؔ ساقی کی ہے دوہری عنایت
شراب کہنہ ڈالی جام نو میں
بہت تھے ہم زباں لیکن جو دیکھا
نہ نکلا ایک بھی ہمدرد سو میں
اسرار اگر سمجھے دنیا کی ہر اک شے کے
خود اپنی حقیقت سے یہ بے خبری کیوں ہے
الفت کو اسدؔ کتنا آسان سمجھتا تھا
اب نالۂ شب کیوں ہے آہ سحری کیوں ہے
اب وہ مشہور نظم
آسان نسخے
جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے
۔۔۔۔۔
اگر تجھہ کو لگے جاڑے میں سردی
تو استعمال کر انڈے کی زردی
۔۔۔۔۔
اگرمعدے میں ہو تیرے گرانی
تو جھٹ پی سونف یا ادرک کا پانی
۔۔۔۔۔
اگر خوں کم بنے بلغم زیادہ
تو کھا گاجر، چنے ،شلغم زیادہ
۔۔۔۔۔
جو بد ہضمی میں تو چاہے افاقہ
تو دو اِک وقت کا کر لے تو فاقہ
۔۔۔۔۔
جو ہو پیچش تو پیچ اس طرح کس لے
ملا کر دودھ میں لیموں کا رس لے
۔۔۔۔۔
جگرکے بل پہ ہے انسان جیتا
اگر ضعفِ جگر ہو کھا پپیتا
۔۔۔۔۔
جگر میں ہو اگر گرمی، دہی کھا
اگر آنتو ں میں خشکی ہے تو گھی کھا
۔۔۔۔۔
تھکن سے ہوں اگرعضلات ڈھیلے
تو فورا دودھ گرما گرم پی لے
۔۔۔۔۔
جو طاقت میں کمی ہوتی ہو محسوس
تومصری کی ڈلی ملتان کی چوس
۔۔۔۔۔
زیادہ گر دماغی ہے تیرا کام
تو کھا تو شہد کے ہمراہ بادام
۔۔۔۔۔
اگر ہو دل کی کمزوری کا احساس
تومربہ آملہ کھا اور انناس
۔۔۔۔۔
جو دکھتا ہو گلا نزلے کے مارے
تو کر نمکین پانی کے غرارے
۔۔۔۔۔
اگر ہے درد سے دانتوں کے بےکل
تو انگلی سے مسوڑوں پر نمک مل
۔۔۔۔۔
اگر گرمی کی شدت ہو زیادہ
تو شربت ہی بجائے آبِ سادہ
۔۔۔۔۔
جو ہے افکارِ دنیا سے پریشاں
نمکداں پڑھ ،نمکداں پڑھ نمکداں
[ ماہنامہ ’’ نمکدان‘‘ کراچی ، فروری مارچ 1955 ]
نیچے درج اشعار ، اسد ملتانی کے نہیں۔ دوسرے لوگوں نے اضافہ کئے ہیں۔۔۔ ایسے مزید بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔
ذیابیطس اگر تجھ کو ہے مارے
تو جامن تازہ کھا اور لے نظارے
شفا گر چاہیے کھانسی سے جلدی
تو پی لے دودھ میں تھوڑی سی ہلدی
اگر کانوں میں کبھی تکلیف ہووے
تو سرسوں تیل پھائے سے نچوڑے
اگر آنکھوں میں پڑ جاتے ہوں جالے
تو دکھنی مرچ گھی کے ساتھ کھا لے
تپ دق سے اگر چاہیے رہائی
بدل پانی کے گّنا چوس بھائی
دمہ میں یہ غذا بے شک ہے اچھی
کھٹائی چھوڑ کھا دریا کی مچھی
گر ہندی تو ہے دنیا سے پریشاں
خدا کی یاد سے کر دل کو شاداں