وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی کےلیے حب ڈیم سے 50 ملین گیلن یومیہ اضافی پانی مانگ لیا،چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی سے ملاقات

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی کےلیے حب ڈیم سے 50 ملین گیلن یومیہ اضافی پانی مانگ لیا۔ چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی سے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کے دوران کے فور منصوبے اور آر بی او ڈی سمیت کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔۔۔

ملاقات میں وزیربلدیات سعید غنی، وزیر آبپاشی جام خان شورو، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری آغا واصف ، سیکریٹری آبپاشی ظریف کھیڑو اور کے فور منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر عامر مغل نے شرکت کی۔۔۔

ملاقات کے ابتدا میں مراد علی شاہ نے کہا کہ حکومت سندھ کراچی کو پانی کی سپلائی بڑھانے کےلیے متوازی کینال بنا رہی ہے۔ انہوں نے کراچی کی ضروریات پوری کرنے کےلیے یومیہ 50 ملین گیلن اضافی پانی مختص کرنے پر زور دیا۔

چیئرمین واپڈا نے وزیراعلیٰ کو تجویز دی کہ وہ واٹر بورڈ سے کہیں کہ اس سلسلے میں تحریری درخواست جمع کرائے جس پر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ تحریری درخواست پہلے ہی جمع کرائی جا چکی ہے۔ چیئرمین واپڈا نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ حب کینال کی مرمت کے سلسلے میں واٹر بورڈ پر واپڈا کے 1 ارب روپے واجب الادا ہیں، وزیراعلیٰ نے جواب دیا کہ ان کی حکومت واپڈا کے واجبات کا معاملہ حل کرے گی۔ انہوں نے وزیر بلدیات سعید غنی کو سمری پیش کرنے کی ہدایت کی۔

کے 4 منصوبہ

کراچی کو یومیہ 260 ملین گیلن پانی کی فراہمی کے میگا منصوبے کے 4 (فیز1) کے کینجھر جھیل سے کراچی میں تین اختتامی پوائنٹس ہیں جن میں پپری، نیک اور منگھوپیر شامل ہیں۔ پروجیکٹ واپڈا بنا رہی ہے اور تکمیل کی تاریخ جون 2026 ہے۔

واپڈا کی جانب سے جو تعمیرات کی جا رہی ہیں ان میں کینجھر جھیل پر 650 میلن گیلن یومیہ کا انٹیک اسٹرکچر، کینجھر پمپنگ کمپلیکس کو جانے والے 650 ملین گلین یومیہ گریویٹی چینل، کمپلیکس میں 130 ایم جی ڈی کی 2 پمپنگ اسٹیشنز ہوں گی۔ اس کے علاوہ 260 ایم جی ڈی کی پائپ لائن اور فلٹریشن پلانٹ کے ساتھ 3 آبی ذخائر کی تعمیر بھی منصوبے کا حصہ ہے۔

دوسری جانب حکومت سندھ تقسیم اور توسیع کے نظام پر کام کر رہی ہے۔ 50 میگاواٹ پاور سپلائی کے انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں اور راستے میں منصوبے کے لیے درکار زمینیں حاصل کی جا رہی ہیں۔ چیئرمین واپڈ نے کے 4 منصوبے پر پیش رفت کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ منصوبہ قومی اور بین الاقوامی کنٹریکٹرز کے ذریعے 8 مختلف ٹھیکوں کی صورت میں مکمل کیا جا رہا ہے. انٹیک اسٹرکچر، پمپنگ اسٹیشنز، واٹر سپلائی کے نظام، پانی کے ذخائر اور فلٹریشن پلانٹس سمیت تمام منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ مجموعی طور پر منصوبے پر 53 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔

بات چیت میں حکومت سندھ کے حصے کے ساڑھے 8 ارب روپے کا اجرا بھی زیر بحث آیا جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے وزیربلدیات سعید غنی کو ہدایت کی کہ وہ سندھ حکومت کے حصے کے پیسے جاری کرنے کےلیے سمری تیار کریں۔

راستے کی 5 کلومیٹر زمین اور عدالتی مقدمات کے سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ نے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کو ہدایت کی کہ اسٹے آرڈرز ختم کرائیں تاکہ منصوبے پر کام کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اس کے علاوہ آر ڈی 78 پر ایک اور زمین کے تنازعے پر وزیراعلیٰ نے سینئر ممبر بورڈ آف ریوینیو کو ہدایت کی کہ معاوضے کی ادائیگی کا معاملہ حل کیا جائے۔

آر بی او ڈی 1 اور 3 منصوبے

وزیراعلیٰ سندھ اور چیئرمین واپڈ نے وفاقی فنڈز سے بنائے گئے آر بی او ڈی 1 اور آر بی او ڈی 3 منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ آر بی او ڈی 1 منصوبہ لاڑکانہ ، دادو اور جامشورو سے سیم زدہ ، زرعی نکاسی اور سیلابی پانی کو نکالنے کی سہولت فراہم کرتا ہے جبکہ آر بی او ڈی 3 منصوبہ قمبر شہدادکوٹ اور جیکب آباد کا پانی نکالتا ہے۔

لوئر انڈس رائٹ بینک اریگیشن اینڈ ڈیرینیج پروجیکٹ ( ایل آئی آر بی پی) خصوصی طور پر آر بی او ڈی 1 منصوبہ 1994 میں سیم اور سیلابی پانی کو سہون کے مقام پر انڈس لنک کینال کے راستے دریائے سندھ میں چھوڑنے کی غرض سے تعمیر کیا گیا تھا۔

آر بی او ڈی 1 اور آر بی او ڈی 3 منصوبے بالترتیب 2020 اور 2021 میں مکمل کیے گئے تھے اور محکمہ آبپاشی سندھ کے حوالے کیے جانے تھے تاہم واپڈ کی طرف سے نقصانات کی بحالی اور قرضے کے تنازعات کے باعث منصوبے حکومت سندھ کے حوالے نہیں کیے جاسکے۔

وزیر آبپاشی جام خان شورو نے بتایا کہ 2022 کے سیلاب کے دوروان حکومت سندھ نے آر بی او ڈی کی بحالی اور مرمت پرکروڑوں روپے خرچ کیے جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ واپڈا یہ پیسے صوبائی حکومت کو ادا کرے۔

ملاقات کے آخر میں وزیراعلیٰ سندھ اور چیئرمین واپڈا نے محکمہ آبپاشی اور واپڈا کے اراکین پر مشتمل ماہرین کی کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا۔ یہ کمیٹی آر بی او ڈی 1 اور آ ربی او ڈی 3 کے ایشوز کا جائزہ لے کر منصوبے حکومت سندھ کے حوالے کرنے کی راہ ہموار کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button