پطرس بخاری ، احمد ندیم قاسمی، فارغ بخاری اور احمد فراز ۔۔۔ان میں سے آخری احمد فراز 16 برس پہلے آج کے دن رخصت ہوئے. احمد فراز 12 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق کوہاٹی فارسی کے ممتاز شاعر تھے۔ فراز نے اردو اور فارسی میں ایم اے کیا ( بعد میں کراچی یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی)احمد فراز نےایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے ۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ” تنہا تنہا ” شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو چھوڑ کر لیکچر شپ اختیار کرلی ۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ ” درد آشوب "چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے ” آدم جی ادبی ایوارڈ ” عطا کیا گیا ۔ اس کے بعد وہ پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوۓ ۔ انہیں 1976 ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا سربراہ بنایا گیا ۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبوراً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی ۔1989 سے 1990 چیرمین اکادمی پاکستان،1991 سے 1993 تک لوک ورثہ اور 1993 سے 2006ء تک ” نیشنل بک فاؤنڈیشن ” کے سربراہ رہے ۔ ایک ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انہیں ” نیشنل بک فاؤنڈیشن ” کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ۔ احمد فراز نے 1966 ء میں” آدم جی ادبی ایوارڈ ” اور 1990ء میں” اباسین ایوارڈ ” حاصل کیا ۔ 1988 ء میں انہیں بھارت میں ” فراق گورکھ پوری ایوارڈ ” سے نوازا گیا ۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر ( کینیڈا ) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا ، جب کہ بھارت میں انہیں 1992 ء میں "ٹاٹا ایوارڈ ” ملا۔ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے ۔ جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع ” احمد فراز کی غزل ” ہے ۔ بہاولپور میں بھی ” احمد فراز ۔فن اور شخصیت ” کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا ۔ دنیا بھر میں اردو مشاعرون میں مدعو کیا گیا۔ ان کی شاعری کے انگریزی ،فرانسیسی ،ہندی،یوگوسلاوی،روسی،جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں ۔ضیأالحق کے مارشل لا کے خلاف نظمیں لکھیں جنہیں بہت شہرت ملی۔ ملٹری حکومت نے حراست میں لیا جس کے بعد احمد فراز کو جلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔2004 میں پرویز مشرف کے دور میں انہیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انھوں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا اور وکلأ کی تحریک میں شامل ہوگئے۔
احمد فراز نے25 اگست 2008 کو وفات پائی۔احمد فراز کےمجموعہ ہائے کلام
تنہا تنہا
دردِ آشوب
شب خون
نایافت
میرے خواب ریزہ ریزہ
بے آواز گلی کوچوں میں
نابینا شہر میں آئینہ
پسِ اندازِ موسم
سب آوازیں میری ہیں
خوابِ گُل پریشاں ہے
غزل بہانہ کروں
جاناں جاناں
اے عشق جنوں پیشہ
احمد فراز کے کچھ اشعار
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھہ ملانے والا
شکوہَ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
آنکھہ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
اب دل کی تمنا ہے تو اے کاش یہی ہو
آنسو کی جگہ آنکھہ سے حسرت نکل آئے
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھہ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھہ دیا
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھہ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا
کوئی تجھہ سا ہو تو پھر نام بھی تجھہ سا رکھے
ہوا ہے تجھہ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھہ ایک دنیا تھی
اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھہ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
میں کیا کروں مرے قاتل نہ چاہنے پر بھی
ترے لیے مرے دل سے دعا نکلتی ہے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے