احمد راہی، جن کا اصل نام غلام احمد تھا، 12 نومبر 1923 کو امرتسر کے ایک کشمیری خاندان میں ہیدا ہوئے ۔ امرتسر میں سعادت حسن منٹو ، سیف الدین سیف اور اے حمید ان کے دوستوں میں شامل تھے ۔
قیام پاکستان کے بعد 24 برس کی عمر میں لاہور آئے تو موقر ادبی جریدے ’سویرا ‘ کے مدیر بنے۔ 1953 میں ان کے پہلے شعری مجموعے ’’ ترنجن ‘‘ کی اشاعت پنجابی ادب کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے۔اس وقت تک پنجابی کے بارے میں تاثر تھا کہ نازک احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے یہ زبان موزوں نہیں ہے لیکن احمد راہی نے ترنجن کے ذریعے اس تاثر کو زائل کردیا اور ان کا شمار جدید پنجابی نظم کے بانیوں میں ہونے لگا۔
ترنجن کی نظموں میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات میں عورتوں کے ساتھ مظالم کو دلگداز انداز میں پیش کیا گیا :
ناں کوئی سہریاں والا آیا
تے ناں ویراں ڈولی ٹوری
جس دے ہتھ جد ی بانہہ آئی
لے گیا زور و زوری
(نہ کوئی سہرے والا آیا، نہ بھائیوں نے ڈولی اٹھائی، جس کے ہاتھہ جو لگی وہ اسے زبردستی لے گیا)
اس مجموعے کا فلیپ سعادت حسن منٹو نے احمد راہی کی فرمائش پر پنجابی میں لکھا ۔
یہ سعادت حسن منٹو کی اکلوتی پنجابی تحریر ثابت ہوئی. (منٹو نے کچھ اور چیزیں بھی پنجابی میں لکھیں. احمد ندیم قاسمی کو امروز میں چھپنے کیلئے دیں، لیکن انہی دنوں قاسمی صاحب گرفتار کرلئے گئے اور ان کی میز پر پڑے کاغذات غائب کردئیے گئے)
احمد راہی کے ترنجن کے بعد آنے والے اردو اور پنجابی مجموعے ’رت آئے رت جائے‘ ،’رگِ جاں‘ ، ’ نمی نمی وا‘ ہیں۔
احمد راہی نے پنجابی فلموں کیلئے شاندار گیت لکھے۔ فلمی کیرئیر کا آغاز پنجابی فلم ’بیلی‘ سے کیا جو تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کے پس منظر میں بنائی گئی تھی۔ اس فلم کی کہانی مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے لکھی جبکہ ہدایات مسعود پرویز نے دیں۔ بیلی کیلئے احمد راہی نے چار گیت لکھے۔انہوں نے مسعود پرویز اور خواجہ خورشید انور کی مشہور پنجابی فلم ’ہیر رانجھا‘ کے لیے بھی نغمات لکھے جن میں ’سن ونجھلی دی مٹھڑی تان‘ اور ’ونجھلی والڑیا توں تے موہ لئی اے مٹیار‘ آج بھی اپنا جادو جگاتے ہیں-
انہوں نے جن دوسری فلموں کے لئے نغمات تحریر کئے ان میں شہری بابو، ماہی منڈا، پینگاں، چھومنتر، یکے والی ، پلکاں، گڈو، سہتی ، یار بیلی ، مفت بر، رشتہ، مہندی والے ہتھ ، بھرجائی، اک پردیسی اک مٹیار، وچھوڑا، باڈی گارڈ، قسمت، ہیر رانجھا، مرزا جٹ، سسی پنوں، نکے ہوندیاں دا پیار، ناجو اور دل دیاں لگیاں شامل ہیں۔
انہوں نے کئی اردو فلموں کے لئے بھی منظر نامہ، مکالمے اور گانے لکھے جن میں یکے والی ، آزاد، کلرک اور باجی شامل ہیں۔
جب گوجر اور جٹ ٹائپ فلموں کا دور آیا اور ملکہ ترنم تک ’’ ویل دی قمیض۔۔۔۔‘‘ تک اتر آئیں تو احمد راہی نے بد دل ہوکر فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ کبھی کبھار کوئی پروڈیوسر رابطہ کرتا تو کہہ دیتے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ وہ کام نہیں کرسکتے۔
فلمی دنیا کی رونقوں سے دوری کے ساتھہ خراب صحت کی وجہ سے دوستوں سے ملنا جلنا بھی بہت کم رہ گیا تو شدید اداسی میں مبتلا ہوگئے
پروین ملک اپنی آپ بیتی ’’کسیاں دا پانی‘‘ میں بتاتی ہیں کہ وہ پی ٹی وی کے پروگرام ’لکھاری‘ کیلئے انٹرویو کی غرض سے پروڈیوسر محمد عظیم کے ساتھ ان کے پاس گئیں ۔ بات شروع کی
’ احمد راہی صاحب، آپ اپنی گزری زندگی پر نظر ڈالیں تو کیا کیا رنگ نظر آتے ہیں، ہمارے ناظرین سے سانجھا کریں گے؟‘
وہ کچھہ دیر ہماری طرف، ہمارے کیمرے کی طرف دیکھتے رہے، ان کی موٹی موٹی آنکھوں میں سوچ کی کوئی جوت نہیں جاگی،
پھر کہا’’ گزر گئی بس، اب اس کے بارے میں کیا سوچنا‘‘ پھر وہ چپ ہوگئے۔ اپنے اندر کھو سے گئے۔ واپسی پر میری اور عظیم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
احمد راہی کی اداس زندگی کا اختتام 2 ستمبر 2002 کو ہوا۔
ان کے یہ مقبول فلمی گیت شاید ہی آپ کے ذہن میں محفوظ نہ ہوں ۔ ۔ ۔
میری چنی دیاں ریشمی تنداں
چوڑے والی بانہہ نہ مروڑ
نہ عشق نوں لیکاں لائیں
برے نصیب میرےویری ہویا پیار میرا
نکے ہوندیاں دا پیار،ویکھیں دیویں نہ وسار
سنجے دل والے بوہے، اجے میں نہیوں ڈھوئے
آندا تیرے لئی ریشمی رومال
جدوں تیری دنیا توں پیار ٹر جائے گا
رناں والیاں دے پکن پروٹھے
کوئی نواں لارا لا کےمینوں رول جا
اینی گل دس دیو نکے نکے تاریو
چندا توری چاندنی میں جیا جلا جائے رے
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئیگا
دل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچے
لوٹ آؤ میرے پردیسی بہار آئی ہے
ایک دل تھا ہزاروں غم پائے
یاد کر کر کے ساری ساری رات
میں وہ دیوانہ ہوں جس پر کوئی ہنستا بھی نہیں
کیوں جگاتے ہو مرے سینے میں ارمانوں کو