مسجد صالح کمبوہ اندرون موچی دروازہ میں واقع ہے۔ محمد صالح لاہوری کمبووؤں کے ایک ممتاز فرد اور سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ ہیں۔ آپ کا درجہ بحیثیت مصنف بہت بلند ہے۔ آپ فارسی کے معروف لکھاری شیخ عنایت اللہ کے رشتہ دار ہیں، سید لطیف نے آپ کو ان کا بھائی، کہنیا لال و صاحب تحقیقات چشتی نے داماد، اور بھانجا بتایا ہے جبکہ بعض نے آپ کو ان کا ہم زلف بھی لکھا ہے۔ آپ فارسی ادب کی انتہائی اہم کتاب ’’عمل صالح‘‘ کے مصنف ہیں۔ اردو میں یہ کتاب ’’شاہ جہان نامہ’’ سے معروف ہے جس میں مغل بادشاہ شاہ جہاں کے بچپن سے لے کر اس کی وفات تک کے واقعات قلمبند کیے گئے ہیں۔
آپ مغل فوج میں امیر البحر بھی رہے اور آپ کو اورنگ زیب عالمگیر کا استاد بھی بتایا جاتا ہے۔ محمد صالح کمبوہ بہترین خطاط بھی تھے اور آپ اپنے علم اور لیاقت کے باعث لاہور کے دیوان کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ آپ کے سن وفات کے بارے میں مؤرخین مختلف آراء رکھتے ہیں۔ نور احمد چشتی نے 1075ھ، کنہیا لال اور ’’لاہور کے اولیائے سہروردیہ‘‘ کے مصنف نے 1080ھ، سید محمد لطیف اور مآثرالکرم کے مقدمے میں شمس بریلوی نے 1085ھ تحریر کیا ہے جبکہ نقوش لاہور نمبر میں اس مسئلے پر طویل بحث کے بعد 1120ھ کے بعد کا عہد بتلایا گیا ہے۔ آپ کا مقبرہ ایمپریس روڈ، ریلوے ہیڈ کواٹر کے پاس ہے۔ دور حاضر میں یہاں سینٹ اینڈروڈ چرچ اور اسکول موجود ہیں جن کی وجہ سے یہاں جانے کی کسی طور اجازت نہیں ملتی۔
موچی دروازے داخل ہوتے ہی یہ دلنشیں مسجد متوجہ کرلیتی ہے۔ یہ مسجد محمد صالح نے 1080ھ (1659ء)میں بنوائی تھی۔ سید لطیف کا کہنا ہے کہ مسجد کے دروازے پر یہ عبارت درج ہے:
بانی ایں مسجد زیبا نگار
بندہ آل محمد صالح است
(ترجمہ: اس خوبصورت عمارت کی مسجد کا بانی آل محمد کا غلام صالح ہے۔)
مگر اس عبارت پر نظر نہیں پڑی۔ مسجد میں جب داخل ہوئے تو قاری صاحب بچوں کو سبق پڑھا رہے تھے۔ ہال کا دروازہ بند تھا اس لیے آرام سے مسجد دیکھ سکتے تھے۔ مسجد کی محرابوں اور دیواروں کے اندرونی جانب قرآن پاک کی آیات اور خوبصورت اشعار درج ہیں۔ کہنیا لال نے مسجد کے متعلق تحریر کیا ہے: ’’عمارت اس کی خشتی و پختہ و ریختہ کار ہے۔ تینوں گنبد مدور صورت عمدہ شکل کے ہیں۔ مسجد کی تینوں محرابوں کے اوپر اور گوشوں کی دیواروں پر کانسی کا کام زرد رنگ میں ہوا وا ہے اور اس میں حروف لاجوردی رنگ کے لکھے ہیں… کانسی کا رنگ اب تک ایسا شوخ نظر آتا ہے کہ گویا آج ہی طاقچہ بنایا گیا ہے اور آج ہی نقش و حروف لکھے گے ہیں۔‘‘
مسجد میں بہت سے خوبصورت اشعار درج ہیں، نہ جانے سید لطیف نے انہیں کیوں مبالغہ آمیز کہا ہے۔ ہال میں داخل ہونے کی مرکزی محراب پر بیرم خان کا مندرجہ ذیل شعر درج ہے:
محمد عربی کا بروی ہر دو سراست
کسی کہ خاک درش نیست خاک برسر او
مترجم مآثر رحیمی عبدالباقی نہاوندی نے اس کا منظوم ترجمہ یوں کیا ہے:
محمد عربی ہیں دونوں جہان کی عزت
جو نہیں آپ کا غلام اس کےلیے ہے ذلت
اوپر جامع ترمذی کی معروف حدیث ’’أفضل الذكر لا إله إلا الله‘‘ درج ہے۔ کناروں پر بھی اشعار درج ہیں۔ بہت سی جگہوں سے لفظ مٹ گئے ہیں مگر تحقیقات چشتی میں مکمل عبارت مل جاتی ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے: ’’آپﷺ کا نور سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہے اور دنیا کا سب اعلٰی نور آپ کا ہے، محراب کی شکل ایسے ہے جیسے ایمان کے بازو، اس جگہ کی جانے والے دعائیں مستجاب ہوں گی، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کعبہ ہے البتہ یہ کعبہ تک پہنچنے کا راستہ ہے، مسجد کے ستون مثل محفلِ اولیاء ہیں، مسجد ہی خدا تک پہنچنے کا راستہ ہے، اس کا راستہ نورانی اور ہر محراب نور سے بھرپور ہے، روشن ضمیروں کے دل آئینہ کی طرح صاف ہوتے ہیں، اور یہ مسجد صالح کےلیے شفاعت کا باعث ہے اور دعا ہے کہ یہاں آنے والے ہر فرد کی حاجت لب پر آنے سے قبل ہی پوری ہوجائے۔‘‘
مسجد کی موجودہ عمارت میں قدیم و جدید طرز تعمیر دیکھنے کو ملتا ہے۔ وضو خانہ اور فرش دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے جبکہ ہال کی عالمگیری دور میں مکمل ہونے والی عمارت قدیمی ہے۔ اس میں عہد شاہجہانی کے طرز تعمیر کی واضح جھلک ہے۔ کسی زمانے میں یہ مسجد اونچی کرسی پر بنائی گئی تھی مگر اب اس کی اونچائی صرف دو تین سیڑھیوں کے برابر رہ گئی ہے۔ اس مسجد کے مشرق میں منشی محمد صالح کمبوہ کی حویلی بھی تھی۔ مسجد کے باہر دکانیں ہیں۔ 2004ء میں مسجد کو گرا کر دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ سوئے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ کو جگایا گیا۔ مسجد کی بیرونی دیوار میں نئی تعمیر ہوچکی تھی البتہ باقی عمارت بچ گی۔ مسجد کے تینوں گنبد موجود ہیں مگر حالت کوئی بہت اچھی نہیں۔ اس مسجد کا طرز تعمیر مسجد مریم زمانی اور مسجد وزیر خان سے مماثلت رکھتا ہے بلکہ مستنصر صاحب نے ’’لاہور آورگی‘‘ میں تحریر کیا ہے: ’’کہا جاتا ہے کہ مسجد وزیر خان جب مکمل ہوگئی تو اس کے ہنرمندوں اور نقاشوں نے اُس مسجد کی تعمیر کے بعد جو سامانِ آرائش، رنگ روغن، نیلی اینٹیں اور عمارتی اینٹیں، سر پلس ہوگئیں انہوں نے انہیں کمبوہ کی مسجد کی تعمیر میں استعمال کیا۔‘‘ مستنصر صاحب نے تو اسے مسجد وزیر خان ثانی قرار دیا ہے۔ اگرچہ یہ اتنی وسیع نہیں لیکن شان و شوکت میں کچھ کم بھی نہیں۔ مسجد کا انتظام شاید اس وقت بازار کے دکانداروں کے پاس ہے۔ ایک چیز سے بے حد خوشی ہوئی کہ اندرون لاہور کی مجھے یہ واحد تاریخی عمارت ملی جس پر اس کی تاریخ سے متعلق آگاہی کےلیے بورڈ لگایا گیا ہے۔
کاش کوئی کرامت ہو اور حکومت کو اپنی تاریخی عمارتوں کی بحالی کا خیال آجائے۔ امید پر تو دنیا قائم ہے، ہم بھی امید کرتے ہیں کہ یہ خواب سچ ہوگا۔