لاہور(راجہ محبوب صابر)پاکستان کے ساڑھے چار کروڑ سے زائد آبادی کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور کا کوئی ماسٹر پلان نہیں۔دنیا میں آلودگی میں کبھی نمبر ون اور کبھی ٹو رہنے والے ان شہروں کے ماسٹر پلان ختم ہونے کے بعد نئے نہیں بن سکے۔کراچی کے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں چھ ماسٹر پلان بنے کسی پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔اس سے بتر حال لاہور کا ہے جس کا پہلا ماسٹر پلان ہی 1972 میں نوٹیفائی ہوا جس کسی حد تک بہتر تھا۔لاہور کا 2004 میں جو ماسٹر پلان بنایا گیا وہ 2021 میں ختم ہو چکا ہے۔عدالت کی طرف سے اجازت ملنے کے باوجود لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ماسٹر پلان 2050 کا نوٹیفکیشن نہیں کیا جا رہا ہے۔ایل ڈی اے ڈویژن کی سطح پر توسیع کے بعد مدت ختم
ہونے والے ماسٹر پلان کو ترامیمی 2016 کا نام دے کر کام چلا رہا ہے۔جس میں نہ تو ڈویژنل سطح پر انڈسٹریل،اکنامک زونز،کمرشل زونز وغیرہ مختص ہیں نہ ہی لانگ ٹرم پلاننگ ہے۔ایسے میں حکومت کی طرف سے نئے انڈسٹریز کے لئے دعوعے سرمایہ داروں، صنعت کاروں،عوام اور دنیا کو بے وقوف بنانے کے علاوہ کچھ نہیں۔لاہور کےماسٹر پلان 2050 کے حوالے سے لینڈ یوز سروے رپورٹ دیگر متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لئے بغیر فائنل کئے جانے کی وجہ سے پہلے ہی متنازعہ بن چکی ہے۔بلدیات ٹائمز ویب سائٹ کی کراچی اور لاہور کی ماسٹر پلاننگ کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کراچی کو پاکستان کا اقتصادی مرکز ہے اس کے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں چھ ماسٹر پلان بنے کسی پر عملدرآمد نہیں ہوا۔آخری ماسٹر پلان 2020 میں ختم ہو چکا ہے۔پہلا کراچی کا ماسٹر پلان 1923،دوسرا 1948،تیسرا 1952 ،چوتھا 1974 ،پانچواں 1991 اور چھٹا 2007 میں بنایا گیا۔آخری ماسٹر پلان کو کراچی اسٹریٹیجک ڈویلپمنٹ پلان کا نام دیا گیا جو مختلف وجوہات کی بنا پر پوری طرح نافذ نہ ہوسکا۔ہاؤسنگ، ٹرانسپورٹ، موسمیاتی تبدیلیوں، انفراسٹرکچر، پانی، سیوریج، بڑھتی ہوئی آبادی سمیت دیگر بے شمار مسائل کراچی اور لاہور میں جامع ماسٹر پلان نہ ہونے اور عملدرآمد نہ ہونے سے پیدا ہوئے ہیں۔اب سندھ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047 پر کام شروع کردیا گیا ہے جو پاکستان کے 100 سال کی نسبت سے نام رکھا گیا ہے اور اسے اگست 2026 تک مکمل کر لیا جائے گا۔سندھ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ کراچی کا بیڑا غرق ماسٹر پلان نہ ہونے اورماضی میں بنائے گئے ماسٹر پلانز پر عملدرآمد نہ ہونے اور ان کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔کراچی کے لئے کبھی بھی بہتر لانگ ٹرم پلاننگ نہیں کی گئی۔لاہور کے ماسٹر پلان پر 60 کی دہائی میں کام شروع ہوا جو 1972 میں نوٹیفائی ہوا۔یہ ماسٹر پلان کافی حد تک کلیئر تھا تاہم متعلقہ وفاقی، صوبائی اور شہری اداروں میں کوآرڈینیشن کے فقدان کی وجہ سے اس ماسٹر پلان سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا گیا۔سابق سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کی طرف سے 2004 میں ماسٹر پلان بنایا گیا جو ہاؤس سے منظوری کے بعد 2005 میں نافذ ہوا ۔اس ماسٹر پلان میں کئی خامیاں سامنے آئیں جبکہ نظر ثانی کے حوالے سے بھی غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا گیا۔پنجاب حکومت نے جب مقامی حکومتوں کا نظام ختم ہونے کے بعد سابق سٹی گورنمنٹ اور موجودہ بلدیہ عظمٰی لاہور سے ماسٹر پلان،ہاؤسنگ سکیموں کمرشلائزیشن، کنورژن وغیرہ کے آخیتارات سلب کر کے ایل ڈی اے کو منتقل کر دیئے اور ایل ڈی اے کی حدود جومیٹروپولیٹن سے ضلع تک کی گئی تھی ڈویژن تک توسیع دے دی گئی۔لیکن نیا ماسٹر پلان بنانے کی بجائے اسی ماسٹر پلان میں ترامیم کر کے اسے 2016 کا نام دے دیا گیا جو چار سال قبل ختم جبکہ لاہور ڈویژن بدمعاشی سے نافذ ہے۔ایل ڈی اے کے لاہور ڈویژن کے لئے ماسٹر پلان 2050 تیار کیا جس کا نوٹیفکیشن عدالتی تحفظات پر روک دیا گیا اب اجازت ملنے کے باوجود ایل ڈی اے اس ماسٹر پلان کو نوٹیفائی کرنے سے گریزاں ہے۔جس میں بھی متعلقہ اداروں سے پوری طرح کوآرڈینیشن نہ کی گئی تھی نہ تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا۔لاہور ڈویژن میں ایل ڈی اے کو ویژن ہاؤسنگ سکیموں تک محدود ہے۔اب جبکہ لاہور کے علاوہ دیگر تینوں اضلاع شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور قصور میں کمرشلائزیشن، کنورژن، ہاؤسنگ سکیموں کے اختیارات بلدیاتی اداروں کو دے دیئے گئے ہیں ماسٹر پلان کا اختیار ایل ڈی اے ہی کے پاس ہے لیکن ایل ڈی اے کا میٹروپولیٹن پولیٹن ونگ اہل ہی نہیں کہ وہ ماسٹر پلان نوٹیفائی ہو بھی جائے تو اس پر عملدرآمد کروا سکے۔یہ بات اہم ہے کہ فراہمی و نکاسی آب کے اہم ادارے واسا لاہور کا ماسٹر پلان 2000 میں ختم ہو گیا تھا جو 24 سالوں میں نہیں بن سکا ۔پنجاب حکومت نے واسا لاہور کا ماسٹر پلان بھی ایل ڈی اے کے 2050 کے مجوزہ ماسٹر پلان میں ضم کر دیا تھا جس کی منظوری بھی ڈویژنل یا ریجنل ماسٹر پلان سے مشروط ہے۔لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے معاملات میں محکمہ بلدیات پنجاب، محکمہ ہاؤسنگ ،پبلک ہیلتھ اینڈ انجینئرنگ، ماحولیات انڈسٹریز سمیت دیگر صوبائی محکموں کے سیکرٹریز کی جرات نہیں مداخلت کر سکیں جس کی بڑی وجہ حکومتی مفادات اور وزیر اعلٰی کی اس ترقیاتی ادارہ کی سربراہی ہے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ڈویلپمنٹ، ری ڈویلپمنٹ ایریاز کی طرف فوکس اور ہائی رائز پر توجہ ہے اس کے برعکس ایل ڈی اے توسیع اور شہروں سے بھی آگے اضلاع تک پھیلاؤ پر بضد ہے۔