ڈیفیمیشن ٹربیونلز ، ٹرائل سے پہلے ہی 30 لاکھ تک عبوری ہرجانے کا حکم دے سکیں گے… ٹربیونل فیک نیوز بنانے اور پھیلانے میں ملوث افراد کو چھ ماہ کے اندر اندر سزا دیں گے۔جرم ثابت ہونے پر عبوری ہرجانے کی رقم حتمی ہرجانے میں وضع کرلی جائے گی۔
ٹربیونل مجرم کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا ایسا کوئی بھی پلیٹ فارم جس کو استعمال کرتے ہوئے مبینہ ہتکِ عزت کی گئی ہو، بند کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔
ہتکِ عزت یا ڈیفیمیشن ایکٹ 2024 کے تحت بنائے گئے ٹریبیونلز کی کارروائی روکنے کے لیے کوئی عدالت حکمِ امتناع جاری نہیں کر پائے گی۔
کوئی بھی ایسا شخص جس کو لگے کہ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے، ساکھ مجروح ہوئی ہے، اسے دوسروں کی نظروں میں گرایا گیا ہے یا اسے غیر منصفانہ تنقید اور نفرت کا نشانہ بننا پڑا ہے ‘وہ ہتک عزت کرنے والے کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتا ہے۔ اسے یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی کہ اس کی ساکھ کو حقیقی طور پر کتنا نقصان ہوا ہے۔ اس قانون کے دائرہ اختیار میں ہر وہ شخص آئے گا ’جو ہتک عزت کے لیے عمومی ذرائع استعمال کرے گا یا پھر اس کے اظہار کے لیے الیکٹرانک اور دیگر جدید میڈیم، ذرائع یا آلات، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور فیس بک، ایکس یا ٹویٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک وغیرہ جیسی ویب سائٹس کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے مقصد سے تصاویر، آوازیں، اشارے، علامات یا تحریریں نشر کرے گا۔‘
قانون کے مطابق قابل کارروائی مواد میں وہ بیان یا اظہار بھِی شامل ہو گا جو کسی مخصوص جنس سے تعلق رکھنے والے افراد یا اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کیا گیا ہو۔
صوبائی حکومت جتنے ٹربیونل ضروری سمجھے قائم کر سکتی ہے اور اس کے ممبران مقرر کر سکتی ہے۔ ٹربیونل کا ممبر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی مشاورت سے مقرر کیا جائے گا۔ جہاں ممبر عدلیہ سے ہوگا وہاں چیف جسٹس تین نام حکومت کو بھجوائیں گے جن میں سے وہ ایک کو ممبر مقرر کرے گی اور جہاں ممکنہ ممبر کا تعلق وکلاء برادری سے ہوگا وہاں حکومت چیف جسٹس کو تین نام تجویز کرے گی۔
متاثرہ شخص مبینہ ہتک عزت کے واقعے کے 60 دن کے اندر ٹربیونل میں شکایت جمع کروا سکتا ہے۔درخواست گزار کو واضح طور پر بتانا ہوگا کہ کس طرح اس کی ساکھ مجروح ہوئی اور وہ کتنا ہرجانہ لینا چاہتا ہے۔ دو گواہان کے بیانِ حلفی بھی جمع کروانے ہوں گے ۔
ٹریبیونل ملزم کو طلب کرے گا. ملزم ٹربیونل سے پہلی پیشی کے 30 دن کے اندر اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنے کی اجازت لے گا۔ ٹریبیونل 60 دن کے اندر اندر درخواست پر فیصلہ کرنے کا پابند ہو گا۔
ہتک عزت کی درخواست اگر کسی ایسے شخص کے خلاف ہو جو کسی آئینی عہدے پر فائز ہے تو اس کے خلاف کارروائی ٹربیونل نہیں بلکہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک سنگل ممبر خصوصی بنچ کرے گا۔ ان افراد میں صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلی، گورنر، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز اور چیف جسٹسز، پاکستانی افواج کے سربراہان وغیرہ شامل ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے سنگل ممبر بینچ کی کارروائی کے لیے وہی اصول اپنائے جائیں گے جو اس قانون کے تحت باقی ٹربیونل کر رہے ہوں گے۔ ہتک عزت کا الزام جھوٹا ثابت ہونے پر الزام لگانے والے کو ہرجانے کا 10 گنا یعنی 30 لاکھ کا تین کروڑ ادا کرنا پڑے گا.
***
چونکہ پہلے سے موجود تعزیرات پاکستان کے تحت، موجودہ عدالتوں میں بھی ہتکِ عزت پر کارروائی ہوسکتی ہے اس لیے انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے نئے قانون کو ایک متوازی عدالتی ڈھانچہ لانا قرار دیا ہے۔
ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ وہ متوازی عدالتی ڈھانچوں کو اس بنیاد پر مسترد کرتا رہا ہے کہ وہ بنیادی حقوق اور منصفانہ عدالتی کارروائیوں کے عالمی طور پر تسلیم شدہ اصولوں کے منافی ہیں۔