پنجاب کی4386 رجسٹرڈ کچی آبادیوں کے مکین مالکانہ حقوق اور بنیادی سہولیات سے محروم سیاسی جماعتوں اور حکومتوں نے صرف ووٹ اور سپورٹ کے لئے استعمال کیا ۔مکین

لاہور(بلدیات ٹائمز)پنجاب کی 4386 رجسٹرڈ کچی آبادیاں 39 سال سے مالکانہ حقوق سے محروم ہیں۔ان آبادیوں میں بنیادی سہولیات میسر نہیں جبکہ 30 لاکھ سے زائد آبادی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔مختلف حکومتوں نے کچی آبادیوں کے مکینوں سے مالکانہ حقوق کے وعدے کئے لیکن کسی نے وعدہ پورا نہ کیا۔مجموعی طور پر پنجاب میں 3375 دیہی اور ایک ہزار کے قریب شہری رجسٹرڈ کچی آبادیاں ہیں۔جن کے لئے پنجاب حکومت کی طرف سے آخری مرتبہ 2008۔9 میں 14 کروڑ 40 لاکھ روپے کے فنڈز جاری کئے گئے جو فریز ہو گئے۔2 ارب 15 کروڑ30 لاکھ روپے کا ترقیاتی پیکج بھی صرف اعلان تک محدود رہا۔مالی سال 2012۔13 میں بھی 15 کروڑ روپے کا فنڈز کا اجراء کیا جانا تھا جس میں عملی پیش رفت نہ ہو سکی اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے انتخابات میں ووٹ لینے کے لئے کچی آبادیوں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دینے کا وعدہ کیا حکومت کے بھاری بجٹ سے میڈیا کے ذریعے تشہیر بھی کی گئی تاہم صرف مالکانہ اسناد پر مکینوں کو ٹرخا دیا گیا جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔متروکہ وقف املاک بورڈ کی طرف سے این او سی نہ ملنے کے باعث 510 رجسٹرڈ کچی آبادیوں کو مالکانہ اسناد بھی نہ مل سکیں جن میں 475 دیہی اور35 اربن کچی آبادیاں شامل ہیں ۔اس سے قبل جنرل پرویز مشرف دور میں بھی کچی آبادیوں کے مکینوں سے جھوٹے وعدے کئے گئے۔پنجاب کی کچی آبادیوں کی رجسٹریشن کے لئے سروے 1985 میں ہوا تھا جس کے بعد مالکانہ حقوق دیئے جانے تھے۔1987 میں محکمہ بلدیات کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کچی آبادیز پنجاب کا قیام عمل میں آیا اب یہ محکمہ محکمہ ریونیو کے ماتحت ہے جو طویل عرصہ سے فنڈز جاری نہ ہونے کی وجہ سے ڈیڈ ہو چکا ہے۔کچی آبادیوں کے مکین اس محکمہ کے نام تک سے واقف نہیں ہیں۔شہری کچی آبادیوں کو ڈیل کرنے والی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز بھی عملی طور پر کوئی کام نہیں کر رہی ہیں جن میں لاہور بھی شامل ہے۔دیہی کچی آبادیوں میں بلدیاتی اداروں نے دودہائیوں سے زائد عرصہ میں ایک بھی سکیم مکمل نہیں کی نہ محکمہ ریونیو نے کوئی توجہ دی ہے۔صوبہ کی 3375 کچی آبادیوں میں سروے کے بعد 1985 سے کوئی ڈویلپمنٹ نہیں کی گئی ہے۔یہ تمام کچی آبادیوں تعلیم، صحت ،صفائی اور تفریحی سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔پی ٹی آئی حکومت نے بھی کچی آبادیوں کے لیے فلیٹس اور تمام ضروری سہولیات کا دعوٰی کیا جو پورا نہ کیا گیا۔چوہدری پرویز الٰہی نے تو بطور وزیر اعلٰی مالکانہ حقوق کی ڈیڈ لائن بھی دے دی مگر کچی آبادیوں کے مکینوں سے وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔اب موجودہ وزیر اعلٰی مریم نواز شریف نے کچی آبادیوں میں ڈویلپمنٹ کا اعلان کیا ہے جو صرف لاہور کی حد تک ہے تاہم ابھی تک اس حوالے سے ایل ڈی اے نے کوئی سکیم بھی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کچی آبادیز پنجاب کو نہیں بجھوائی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ محکمہ ریونیو یا محکمہ مال کے پاس کچی آبادیوں کے مکینوں کا کوئی مصدقہ ڈیٹا موجود نہیں۔ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کچی آبادیز پنجاب نے بھی نئے سرے سے رجسٹرڈ کچی آبادیوں کا سروے کروانے کی بجائے فرضی ڈیٹا بنا رکھا ہے جس کے لئے گراونڈ رائلٹی کی بجائے جعلی فارمولے کا استعمال کیا گیا ہے۔دیہی کچی آبادیاں تو 39 سال سے نظر انداز ہیں ہی اربن کچی آبادیوں کا ریکارڈ اور سروے ایل ڈی اے یا دیگر ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے پاس موجود نہیں ہر ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ایک کچی آبادی کا ڈائریکٹوریٹ موجود ہے جس کے افسران اور ملازمین کام نہ کرنے کی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ورلڈ بنک اور محکمہ کچی آبادیز پنجاب کے درمیان ایک پراجیکٹ پر پیش رفت بھی رک گئی ہے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ4386 رجسٹرڈ شہری اور دیہی کچی آبادیوں پر کوئی ملکی اور غیر ملکی این جی اوز یا ادارہ کام نہیں کر رہا ہے۔مکینوں کی طرف سے بنائی گئی تنظیم بھی ماضی کا قصہ بن گئی ہے۔مکینوں کی طرف سے ڈویلپمنٹ کی بجائے پہلے مالکانہ حقوق دینے کی استدعا کی گئی ہے۔بلدیات ٹائمز کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق محکمہ کچی آبادیز پنجاب جب سے محکمہ بلدیات سے محکمہ ریونیو میں ضم ہوا ہے اس کی شناخت ہی ختم ہو گئی ہے اور یہ عملی طور پر غیر متحرک ہے جس کا کوئی اپنا دفتر بھی نہیں یہ محکمہ کرائے کی کوٹھی میں ہے جو ایک درجن کے قریب دفاتر بدل بدل کر خود بھی تبدیل ہو گیا ہے۔اس محکمہ کو کلرک بادشاہ چلا رہے ہیں۔وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز شریف نے کچی آبادیوں میں ڈویلپمنٹ شروع کرنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن محکمہ کچی آبادیز پنجاب نے تصدیق کی ہے کہ نہ تو کسی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور نہ ہی بلدیاتی ادارے سے انھیں کوئی سکیم بجھوائی گئی ہے ان اداروں کی صوبائی سطح پر کوئی کوآرڈینیشن بھی نہیں ہے۔مالکانہ حقوق دینے کے لئے بھی ابھی تک کوئی سنجیدہ اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں۔کچی آبادیوں کے مکینوں نے اب تک جو بھی ڈویلپمنٹ کی ہے اپنے طور پر ہے۔جس میں پانی بجلی, سیوریج، ڈرینج، واٹر سپلائی بعض میں گیس وغیرہ شامل ہیں۔پوش اور گنجان آبادیوں کے مکینوں پر قبضہ اور خالی کروانے کا خوف منڈلاتا رہتا ہے۔بڑی تعداد میں قبضے بھی ہو چکے ہیں مالکانہ حقوق اور ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ مکینوں کی کہیں داد رسی بھی نہیں ہوئی ہے۔کچی آبادیوں کے مکینوں کے مطابق تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں انھیں ووٹ اور سپورٹ کے لئے ہی استعمال کرتی آ رہی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button