ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ میں اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے پاک فضائیہ کے ہیرو فلائٹ لیفٹینٹ سیسل چوہدری کی داستان شجاعت

آج دنیا بھر میں اقلیتوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے اس مناسبت سے ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ میں اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے پاک فضائیہ کے ہیرو فلائٹ لیفٹینٹ سیسل چوہدری کی داستان شجاعت ۔فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری پاکستان کے پہلے فوٹو جرنلسٹ ایف ای چوہدری کے صاحبزادے تھے۔ آپ ۲٧ اگست ١۹٤١ء کو ضلع جہلم کے ایک گاؤں ڈھلیوال میں پیدا ہوئے۔ سینٹ انتھونی ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایف سی کالج لاہور سے فزکس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ ١۹٥۸ء میں پاک فضائیہ میں شمولیت کے لیے درخواست دی اور ١۹٦۰ء میں آپ کو پاک فضائیہ میں کمیشن مل گیا۔ ١۹٦٥ء کی جنگ میں سیسل چوہدری نے بطور فلائٹ لیفٹنٹ, سرفراز رفیقی شہید کی زیر قیادت متعدد کاروائیوں میں شرکت کی۔ جس میں سے سب سے اہم، معرکہ ہلواڑہ تھا۔ اس معرکہ میں آپ نے سرفراز احمد رفیقی اور یونس حسین کے ساتھ بھارت پر حملہ کیا۔ حملے میں ان تینوں جانبازوں نے کئی بھارتی طیاروں کو تباہ و برباد کیا۔ مگر اسی دوران باقی دونوں مادر وطن پر قربان ہوگئے اور سیسل اپنے ساتھیوں کے بغیر اکیلے ہی واپس لوٹے۔

١۹٦٥ء کی جنگ میں سیسل چوہدری کی مہارت کے حوالے سے بشری سلطانہ صاحبہ نے اپنی کتاب "رہبر روشنیاں” میں ایک واقعہ درج کیا ہے۔ بشری سلطانہ لکھتی ہیں کہ "ایک مرتبہ بھارت کی حدود میں پرواز کرتے ہوئے جہاز میں ایندھن بہت کم رہ گیا۔ جیسے ہی سیسل کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ سرگودھا ائیر بیس تک نہیں پہنچ پائیں گے، تب وہ جہاز کو بہت بلندی پر لے گئے اور پھر جہاز کو گلائیڈ کرتے ہوئے بحفاظت واپس پہنچے۔ ان کا یہ اقدام انتہائی جرات مندانہ تھا، کیوں کہ اس سے پہلے پاکستان میں کسی نے بھی اس طرح جنگی جہاز کو گلائیڈ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔” ١٩٦٥ کی جنگ میں اعلیٰ کارگردگی دکھانے پر سیسل چوہدری کو ستارہ جرات سے نوازا گیا۔اس حوالے سے محمد افضل اپنی کتاب "سٹوری آف پی اے ایف ہیرو” میں لکھتے ہیں کہ تمغہ کے ساتھ آپ کو یوں خراج تحسین پیش کیا گیا "مشن ہلواڑہ میں چوہدری انتہائی مہارت و جارحانہ انداز سے بھاری مشکلات میں لڑے۔ دشمن کے علاقے میں ٦۰ میل اندر جا کر دو ہنٹر طیاروں کو گن اٹیک سے تباہ کیا۔ آپ اپنی پیشہ وارانہ مہارت و ہمت کے باعث انتہائی منفی حالات میں بھی, اپنے ساتھیوں سے رابطہ ٹوٹ جانے کے باجود بیس پر کامیابی سے واپس پہنچے۔ ١٥ ستمبر ١۹٦٥ء کو فلائٹ لیفٹیننٹ چوہدری نے رات کے حملہ میں اپنی بیس سے ١٥۰ میل تک دشمن کا تعاقب کیا۔ لڑائی کے دوران دشمن کے ایک کیمبرہ بمبار طیارے کو تباہ کیا۔ آپ کی پیش کردہ خدمات عام فرائض سے بڑھ کر تھیں اور انہوں نے پاکستان ائیر فورس کی فضائی برتری کے حصول میں اہم حصہ ڈالا۔”

سلطانہ بشیر صاحبہ نے ذکر کیا ہے کہ جب ١۹٧١ء کی جنگ شروع ہوئی تو سیسل چوہدری کی اہلیہ کو اپنی تین ننھی صاحبزادیوں کے باعث کچھ تشویش ہوئی تو آپ نے جواب دیا "وہ یہ جنگ صرف اپنی تین بیٹیوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے وطن کی ہزاروں بیٹیوں کے لئے لڑیں گے۔” اس جنگ میں بھی آپ نے اہم خدمات سر انجام دیں۔ ایک معرکہ میں جب آپ کا طیارہ بھارتی علاقہ میں تباہ ہوگیا تو آپ معجزاتی طور بارودی سرنگوں سے بچ کر پاکستانی سرحد پر پہنچے۔ اس حملہ میں آپ شدید زخمی ہوئے اور آپ کی چار پسلیاں ٹوٹ گئیں, معالجوں نے آپ کو آرام کا مشورہ دیا مگر آپ ہسپتال میں داخل ہونے کے اگلے روز ہی اپنے بھائی کی مدد سے فرار ہو کر بیس پر واپس پہنچ گئے۔ آپ کے بھائی انتھونی چوہدری بھی پاک فضائیہ کا حصہ رہے ہیں اور بحیثیت ونگ کمانڈر ریٹائر ہوئے۔ سیسل چوہدری نے ١۹٧١ء کی جنگ میں ٹوٹی ہوئی پسلیوں کے ساتھ قریباً ١٤ حملوں میں حصہ لیا۔ اس مرتبہ آپ کی گراں قدر خدمات کے صلے میں آپ کو ستارہ بصالت سے نوازا گیا۔

١۹٧۸ء میں آپ کو برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے میں ملٹری اٹاشی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق صاحب نے اس تعیناتی کو معطل کردیا۔ ١۹٧۹ء میں سیسل چوہدری نے عراقی ہوا بازوں کو تربیت دینا شروع کی۔ حکومت عراق نے آپ کے خدمات کو سراہتے ہوئے اپنے سب سے اعلیٰ سول ایواڑ سے بھی نوازا۔ جب آپ کی مدت ملازمت یہاں ختم ہوئی تو صدام حسین نے حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ آپ کے مدت قیام میں توسیع کردی جائے۔ آپ کو عراقی فضائیہ میں بطور مشیر مستقل ملازمت کی بھی پیش کش کی گئی۔ مگر آپ وطن واپس لوٹ آئے۔ ١٩۸٦ء میں سیسل چوہدری نے پاک فضائیہ سے استعفیٰ دیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں غیر مسلم احباب کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس سے سیسل چوہدری بھی متاثر ہوئے تو آپ نے مسیحیوں کی فلاح و بہبود کے لیے جدوجہد شروع کی۔ آپ سینٹ انتھونی ہائی اسکول کے پرنسپل بھی رہے۔ آپ نے غیر مسلم و پسماندہ پاکستانیوں کے حقوق کے لیے سابق وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کے ساتھ مل کر "پاکستان اقلیتی محاز” کے نام سے ایک نیم سیاسی جماعت بھی بنائی۔ پاک فضائیہ سے رخصت ہونے کے بعد آپ نے تعلیم و انسانی حقوق کے لیے بطور خاص کام کیا۔ آپ کو ان خدمات پر پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔ سیسل چوہدری نے ١٣ اپریل ۲۰١۲ء کو وفات پائی۔

 

کچھ عرصہ قبل ریگل چوک سے گزر ہوا تو قریب ہی سیسل چوہدری کے نام کی تختی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ نومبر ۲۰١٤ء میں حکومت پاکستان نے سیسل چوہدری کی خدمات کے اعتراف میں ریگل چوک سے پلازہ چوک تک لارنس روڈ کو سیسل چوہدری کے نام سے منسوب کیا تھا۔ اس حوالے سے ایک تقریب آپ کی مادر علمی سینٹ اینتھونی ہائی اسکول میں منعقد ہوئی جس میں اس وقت کے ائیر وائس مارشل مجاہد انور خان, ائیر آفیسر کمانڈنگ, سنٹرل ائیر کمانڈ پاکستان ائیر فورس و دیگر نے شرکت کی تھی۔ سیسل چوہدری بلاشبہ پاکستان کے ایک ایسے مایا ناز مسیحی سپوت ہیں جنہوں نے وطن کے دفاع کے لیے بیش بہا خدمات سر انجام دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو اپنے ایسے جانبازوں سے متعارف کروایا جائے۔ سیسل چوہدری روڈ اس ضمن میں یقیناً ایک اہم قدم ہے۔ لیکن ابھی بھی ہمیں اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ گو کہ سیسل چوہدری روڈ پر ایک تعارفی تختی لگائی گئی ہے مگر اس پر درج معلومات ناکافی ہے۔ غیر مسلم احباب کے حوالے سے نصاب میں لازماً ایک باب شامل کرنا چاہیے۔ نیز یوم دفاع اور دیگر قومی دنوں پر غیر مسلم اہم شخصیات کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنی مٹی کی ان عظیم شخصیات سے طلباء کو متعارف کروائیں۔ بلا تفریق مذہب کارہائے نمایاں سرانجام دینے والوں کو الیکٹرانک میڈیا و اخبارات میں سراہنا چاہیے۔ ہم سب پاکستانی ہیں جنہوں نے ملک کی ترقی کے لیے مل جل کر کام کرنا ہے۔ غیر مسلموں کے حقوق کے حوالے سے بھی عوام کو آگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اکٹھے رہنا سیکھ لیا تو یقیناً ہمارا مستقبل ہمارے ماضی سے مختلف ہوگا۔

بشکریہ ۔

طلحہ شفیق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button