راحت اندوری (1950-2020)یاد راحت

یومِ وفات پر خصوصی پیشکش

یادِ راحت

راحت اندوری (1950-2020) ہندوستان کے ممتاز اردو شاعر، نغمہ نگار اور ادب کے میدان میں ایک منفرد شناخت رکھنے والے شاعر تھے۔ ان کا اصل نام راحت اللہ قریشی تھا، مگر وہ اپنے تخلص "اندوری” سے مشہور ہوئے، جو انہوں نے اپنے آبائی شہر اندور کے نام پر اپنایا۔ 11 اگست 2020 کو ان کا انتقال ہوا، اور اس دن کو اردو ادب کے لئے ایک ناقابل فراموش صدمہ قرار دیا جاتا ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم:

راحت اندوری کا جنم 1 جنوری 1950 کو اندور، مدھیہ پردیش میں ہوا۔ ان کا خاندان متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا، اور راحت نے ابتدائی تعلیم اندور سے ہی حاصل کی۔ انہوں نے اسلامیہ کریمیہ کالج سے گریجویشن کیا اور بعد میں برکت اللہ یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی شاعری کی تعلیم اور دلچسپی کی ابتدا نوجوانی میں ہی ہوئی تھی، اور بہت جلد انہوں نے مشاعروں میں اپنی جگہ بنالی۔

شاعری کی خدمات:

راحت اندوری کی شاعری کی شناخت ان کی منفرد انداز، سماجی شعور، اور زبان کی شیرینی میں مضمر ہے۔ ان کے کلام میں عموماً محبت، معاشرتی مسائل، اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کا عکس ملتا ہے۔ ان کی شاعری کی خاص بات یہ تھی کہ وہ معاشرتی عدم مساوات اور ناانصافیوں کے خلاف بے باک آواز اٹھاتے تھے۔

راحت اندوری کے اشعار کی گونج صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہی، بلکہ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے:

"سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے”

یہ اشعار نہ صرف ان کی شاعری کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان کے مزاج اور فکر کی گہرائی کا بھی مظہر ہیں۔

مشاعروں میں شرکت:

راحت اندوری کی پہچان مشاعروں کے ذریعے ہوئی۔ وہ ایک ایسے شاعر تھے جو مشاعروں میں اپنے منفرد اندازِ بیاں کی وجہ سے بے حد مقبول تھے۔ ان کی آواز میں ایک خاص کشش تھی جو سننے والوں کو مسحور کر دیتی تھی۔ انہوں نے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک بھی مشاعروں میں شرکت کی اور اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔

 

نغمہ نگاری:

راحت اندوری نے بالی ووڈ فلموں کے لئے بھی نغمے لکھے، جو بہت مشہور ہوئے۔ ان کے لکھے ہوئے نغمے "منموہنی تربی سٹائل” (فلم: مجنو)، "تم سا کوئی پیارا” (فلم: خودغرض)، اور "بانسی” (فلم: مشن کشمیر) آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔

 

یوم وفات:

راحت اندوری 11 اگست 2020 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کا انتقال اردو ادب کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔ ان کی وفات نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں کو غمزدہ کر دیا۔

راحت اندوری نے اپنے اشعار کے ذریعے سماج کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا اور اردو ادب کو ایک نئی سمت عطا کی۔ ان کی شاعری میں ایک خاص قسم کی حقیقت پسندی اور سماجی شعور تھا جو انہیں دیگر شاعروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کا کلام اردو ادب کے افق پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button