حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ کوئی تعلیمی اسناد حاصل نہیں کر سکے تھے ۔ اس کمی کو ذاتی مطالعے سے پوری کیا۔ شاعری میں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر گرامی سے اصلاح حاصل کی۔
وہ جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی بھرتی کیلئے پبلسٹی کے شعبے کے افسر رہے اور بھرتی ہونے پر مائل کرنے والے گیت لکھے ۔ بہاولپور سمیت کئی ریاستی درباروں سے وابستہ رہے۔ 1947ء میں وہ لاہور آ گئے۔ بعد میں پاک فوج کے ڈائریکٹر جنرل مورال بھی رہے۔
حفیظ جالندھری گیت کے ساتھہ ساتھہ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کا شاہنامہ اسلام چار جلدوں میں شائع ہوا۔جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔ حفیظ جالندھری کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے ۔انہوں نے 21 دسمبر 1982 کو وفات پائی۔
حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ بار، تلخابہ شیریں اورسوزو ساز، افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر، گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب چیونٹی نامہ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
۔ شاعری شروع کی تو مولانا غلام قادر بلگرامی سے اصلاح لیتے رہے۔ محنت اور ریاضت سے جلد شعرا کی فہرست میں جگہ بنالی۔جنگ عظیم کے دوران فوج میں بھرتی کی ترغیب دینے والے سانگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہوگئے اور ” میں تو چھورے کو بھرتی کرائی آئی رے” جیسے مشہور گیت لکھے ۔ قیام پاکستان کے بعد حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
وہ اپنا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام سمجھتے تھے جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔
ایک اور کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے. اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حفیظ جالندھری نے یہ ترانہ احمد جی چھاگلہ کی دھن پر تخلیق کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کا قومی ترانہ یوں تو تقریبا” ہر پاکستانی کو یاد ہے لیکن اکثریت کو اس کا مطلب نہیں پتا- آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ پاکستان کے قومی ترانے کا اردو ترجمہ کیا ہے-
امید ہے آپ کو یہ کاوش پسند آئے گی- اسے شیئر کیجئے تاکہ ہر پاکستانی اس سے استفادہ کر سکے-
پاک سر زمین شاد باد
اے پاک سر زمین تو ہمیشہ شاد باد رہے
کشور حسین شاد باد
اے ہماری حسین مملکت تو ہمیشہ شاد باد رہے
تو نشان عزم عالی شان ارض پاکستان
ارضِ وطن تو ہمارے عزمِ عالی شان کی علامت ہے
مرکزِ یقین شاد باد
تو ہمارے ایمان و یقین کا مرکز ہے
پاک سر زمین کا نظام، قوت اخوت عوام
اے پاک سر زمین ،عوام کی قوت اور عوام کی اخوت ہی تیرا نظام ہے
قوم ملک سلطنت پائندہ تابندہ باد
یہ قوم اور یہ ملک اور یہ سلطنت ہمیشہ قائم رہے ہمیشہ تابندہ رہے
شاد باد منزل مراد
اے ہماری منزلِ مراد تو ہمیشہ شاد باد ہے
پرچم ستارہ و ہلال
چاند ستارے والا ، سبز پرچم
رہبر ترقی و کمال
ہماری ترقی اور اوجِ کمال کا رہبر ہے
ترجمان ماضی، شان حال، جان استقبال
یہی پرچم ہمارے ماضی کا ترجمان ہے اور زمانہِ حال میں ہماری شان ہے
سایہ خدائےذوالجلال
اس مملکت پر ہمیشہ خدائے ذوالجلال کی رحمت برسے
قومی ترانہ کمیٹی دسمبر 1948ءمیں قائم کی گئی تھی اس کے ارکان میں پیرزادہ عبدالستار، پروفیسر راج کمار چکرورتی، چودھری نذیر احمد، سید ذوالفقار علی بخاری، اے ڈی اظہر، کوی جسیم الدین، اور حفیظ جالندھری شامل تھے۔ کنوینر ممتاز دانشور اور بیورو کریٹ ایس ایم اکرام اور صدر عبدالرب نشتر تھے۔ سردار عبدالرب نشتر کو جب پنجاب کا گورنر بنا دیا گیا تو ترانہ کمیٹی کی صدارت پیرزادہ عبدالستار کو تفویض کی گئی جو اگرچہ خوراک و زراعت کے وفاقی وزیر تھے لیکن موسیقی میں بھی دسترس رکھتے تھے۔
قومی ترانہ کمیٹی کو اس پانچ سال کے عرصے میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے 723 ممتاز شاعروں نے ترانے بھیجے لیکن ترانہ کمیٹی نے حکیم احمد شجاع، حفیظ جالندھری اور سید ذوالفقار علی بخاری کے ترانوں کو ”شارٹ لسٹ“ کیا۔ یہ ترانے 4 اگست 1954 ءکو پاکستان کی مرکزی کابینہ کے سامنے پیش کیے گئے۔ کابینہ نے حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو ”قومی ترانے“ کے طور پر منظور کرلیا اور یہ پہلی مرتبہ 31 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔
حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے. غنائیت کا سبب ان کا اپنا ترنم اور گیت نگاری بھی ہے۔ اسی لیے آج تک ان کی ایک شناخت "ابھی تو میں جوان ہوں” بھی ہے۔
حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ لیکن ان کے دوسرے نمایاں کاموں کے باعث ان کی غزل پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی. انہوں نے 21 دسمبر 1982ء کو وفات پائی ۔اللہ پاک درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین انک سمیع الدعاء
حفیظ جالندھری کی کتابیں
شعری مجموعے
نغمہ بار
تلخابہ شیریں
سوزو ساز
ہندوستان ہمارا(گیت)
پھول مالی (بچوں کی نظمیں)
شاہنامہِ اسلام
بزم نہیں رزم
چراغِ سحر
تصویرِکشمیر
بہار کے پھول
افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر
اپنے موضوع پر واحد کتاب” چیونٹی نامہ”
غزلوں سے کچھ اشعار:
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
عرض ہنر بھی وجہ شکایات ہو گئی
چھوٹا سا منہ تھا مجھہ سے بڑی بات ہو گئی
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
تشکیل و تکمیل فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
سناہے اس طرف بھی جنابِ عشق گزریں گے
مری ہستی نہ اڑ جائے غبارِ کارواں ہوکر
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر
ناخدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا
لے چل ہاں منجدھار میں لے چل ساحل ساحل کیا چلنا
میری اتنی فکر نہ کر‘ میں خوگر ہوں طوفانوں کا
پیاروں کی موت نے مری دنیا اجاڑ دی
یاروں نے دور جا کے بسائی ہیں بستیاں
ہاں بڑے شوق سے شمشیر کے اعجاز دکھا
ہاں بڑے شوق سے دعویٰ مسیحائی کر
🖍️ – حفیظؔ جالندھری
ابھی تو میں جوان ہوں
حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے. صرف سات جماعتیں پڑھ سکے مگر اس کمی کو انہوں نے ذاتی مطالعے سے پورا کیا۔ شاعری شروع کی تو مولانا غلام قادر گرامی سے اصلاح لیتے رہے۔ محنت اور ریاضت سے جلد شعرا کی فہرست میں جگہ بنالی۔جنگ عظیم کے دوران فوج میں بھرتی کی ترغیب دینے والے سانگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہوگئے اور ” میں تو چھورے کو بھرتی کرائی آئی رے” جیسے مشہور گیت لکھے ۔ قیام پاکستان کے بعد حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
وہ اپنا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام سمجھتے تھے جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔
ایک اور کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے. اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حفیظ جالندھری نے یہ ترانہ احمد جی چھاگلہ کی دھن پر تخلیق کیا اور حکومت پاکستان نے اسے 4 اگست 1954ء کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا۔
حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے. غنائیت کا سبب ان کا اپنا ترنم اور گیت نگاری بھی ہے۔ اسی لیے آج تک ان کی ایک شناخت "ابھی تو میں جوان ہوں” بھی ہے۔
حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ لیکن ان کے دوسرے نمایاں کاموں کے باعث ان کی غزل پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی. ملاحظہ فرمائیں ان کی غزلوں سے کچھ اشعار:
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
عرض ہنر بھی وجہ شکایات ہو گئی
چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
تشکیل و تکمیل فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
سناہے اس طرف بھی جنابِ عشق گزریں گے
مری ہستی نہ اڑ جائے غبارِ کارواں ہوکر
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر
ناخدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا
لے چل ہاں منجدھار میں لے چل ساحل ساحل کیا چلنا
میری اتنی فکر نہ کر‘ میں خوگر ہوں طوفانوں کا
پیاروں کی موت نے مری دنیا اجاڑ دی
یاروں نے دور جا کے بسائی ہیں بستیاں
ہاں بڑے شوق سے شمشیر کے اعجاز دکھا
ہاں بڑے شوق سے دعویٰ مسیحائی کر
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے یارب کہ مجھے
ہر بُری بات‘ بُری بات نظر آتی ہے
یہ ہے طرفہ صورت دوستی کہ نگاہ و دل ہمہ برف ہیں
نہ وہ بادہ ہے نہ وہ ظرف ہیں نہ وہ حرف ہیں نہ حکائتیں
جس نے اس دور کے انسان کیے ہیں پیدا
وہی میرا بھی خدا ہو مجھے منظور نہیں
میری چپ رہنے کی عادت جس کارن بدنام ہوئی
اب وہ حکایت عام ہوئی ہے سنتا جا شرماتا جا
قافلہ کس کی پیروی میں چلے
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے
کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
حفیظ جالندھری کی کتابیں
شعری مجموعے
نغمہ بار
تلخابہ شیریں
سوزو ساز
ہندوستان ہمارا(گیت)
پھول مالی (بچوں کی نظمیں)
شاہنامہِ اسلام
بزم نہیں رزم
چراغِ سحر
تصویرِکشمیر
بہار کے پھول
افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر
اپنے موضوع پر واحد کتاب” چیونٹی نامہ”
آج حفیظ جالندھری کی 42 ویں برسی ہےحفیظ جالندھری نے شاہنامۂ اسلام سب سے پہلے بہاولپور میں سنایا
کالج کے لڑکوں میں اتنا دل لگا کہ تین ماہ ہوسٹل میں ٹِکے رہے
بہاولپور ، حیدر آباد اور بھوپال کی مسلمان ریاستیں اہلِ علم و ادب کی کافی سرپرستی کرتی تھیں۔ ریاست بہاولپور سے علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری کو وظیفے ملتے رہے۔
ڈاکٹر مہر عبدالحق ، ایس ای کالج بہاولپور میں احمد ندیم قاسمی کے کلاس فیلو اور ہاسٹل کے ساتھی بھی تھے۔ دونوں نے 1934 میں بی اے پاس کیا۔
مہر صاحب نے پروفیسر سجاد حیدر پرویز کو انٹرویو میں بتایا کہ ان کی طالب علمی کے زمانے میں حفیظ جالندھری بہاولپور آتے رہتے تھے۔ وہ ان دنوں جوان تھے اور جب بہاولپور آتے تو ریشمی دھوتی کے ساتھ بہاولپوری چولا( کرتا) ان کا لباس ہوتا تھا۔ اہلِ بہاولپور سے قربت کیلئے یہاں کی علامت پھندنے والی سرخ ترکی ٹوپی بھی اوڑھتے تھے۔ وہ شاہنامۂ اسلام ( مکمل یا کچھ حصہ) لکھہ چکے تھے۔
مہر صاحب کے مطابق شاہنامۂ اسلام ،حفیظ نے سب سے پہلے بہاولپور کی جامع مسجد میں سنایا جہاں امیر، وزیر سب موجود تھے ، اور خوب نذرانے ملے۔
بعد میں طلبأ انہیں ہوسٹل لے گئے۔ وہاں کالج کے لڑکوں میں ان کا اتنا دل لگا کہ تین ماہ ہوسٹل میں ہی مقیم رہے ۔ روز ان سے شاہنامہ اور دوسری شاعری سنی جاتی ۔ مہر عبدالحق کہتے تھے اس طرح روز سن سن کر انہیں شاہنامۂ اسلام زبانی یاد ہوگیا تھا۔
ملاحظہ فرمائیے اسی زمانے کا حفیظ کا ریاست بہاولپور کے ایک عہدیدار کے نام خط جس میں نواب بہاولپور کے عطیات کا ذکر ہے۔