آج پطرس بخاری کی 66 ویں برسی ہے۔ انہوں نے 5دسمبر 1958 کو وفات پائی۔ نیویارک میں سپردِ خاک ہوئے

پطرس بخاری، جن کا اصل نام احمد شاہ تھا، یکم اکتوبر 1898ء کو پشاور میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد سید اسد اللہ شاہ بخاری پشاور کے ایک معروف وکیل خواجہ کمال الدین کے منشی تھے۔ احمد شاہ کو گھر پر ناظرہ قرآن پاک پڑھایا گیا۔ "صفوۃ المصادر” کے ذریعے فارسی زبان کے قواعد کی تعلیم دی گئی۔ نو سال کی عمر میں احمد شاہ کو انگریزی تعلیم کے لئے مشن اسکول پشاور میں داخل کرادیا۔ مشن اسکول میں انہوں نے انگریزی نظمیں زبانی یاد کرنا شروع کردیں۔ انگریزی کے استاد انگریز تھے جو بچوں کے تلفظ کا خاص خیال رکھتے تھے۔ احمد شاہ کی آواز، انگریزی لہجے اور خوبصورت تلفظ کے سبب ان پر خصوصی توجہ دینے لگے۔ 1913ء میں پندرہ برس کی عمر میں میٹرک اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا۔

 

والد صاحب نے انہیں 1914ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ دلوا دیا ۔ شرمیلے، کم گو ہونے کے باوجود ہوشیار طالبِ علم کی حیثیت سے اُبھرے ۔ گورنمنٹ کالج کےمجلہ ’’راوی‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ بہت بعد میں کالج کے نیو ہوسٹل کا میگزین جاری ہوا تو اس کا نام ’’پطرس‘‘ رکھا گیا۔

 

پطرس بخاری 26-1925ء میں اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان گئے۔ انہوں نے انگریزی ادب میں اعلیٰ ترین سند کے لئے کیمبرج یونیورسٹی کا انتخاب کیا اور کیمبرج یونیورسٹی کے عمانویل کالج میں انگریزی ادب میں TRIPOS کی سند اول درجے میں حاصل کی اور عمانویل کالج کے سینئر اسکالر منتخب ہوئے۔ وہ جنوبی ایشیا کے دوسرے طالبِ علم تھے جس نے انگریزی ادب میں اول درجے میں سند حاصل کی

 

بخاری صاحب نے ملازمت کا آغاز 1922ء میں سنٹرل ٹریننگ کالج میں لیکچرر شپ سے کیا۔ بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور مین لیکچرار ہوئے اور 1935ء تک منسلک رہے۔ اُس وقت کے گورنر نے آپ کوشعبۂ انگریزی کی صدارت پر فائز کیا۔ یاد رہے پطرس بخاری پہلے مسلمان صدر شعبۂ انگریزی تھے۔ Prof. E. Dickenson کی سبکدوشی کے بعد یکم مارچ 1947ء کوپطرس نے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا جہاں 1950ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ حصولِ آزادی کے بعدانڈیا آفس لائبریری کی تقسیم کے سلسلے میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔

 

پطرس بخاری کے شاگردوں میں فیض احمد فیض، ن م راشد، کنہیا لال کپور، اقبال سنگھہ، الطاف قادر، حفیظ ہوشیار پوری، حنیف رامے اور پروفیسراشفاق علی خان بطور خاص شامل ہیں۔

 

1936ء میں جنوبی ایشیا میں ریڈیو کے باقاعدہ قیام نے بخاری صاحب صلاحیتوں کو جِلا بخشی نے تعلیم کے شعبے کو خیرباد کہہ کر ایک ایسے میدان میں خدمت کو ترجیح دی جس کے امکانات لامحدود تھے۔ ریڈیو کے عملے کے انتخاب کے لیے مرکزی حکومت نے جو بورڈ تشکیل دیا تھا اس میں صوبہ پنجاب کے نمائندے کی حیثیت سے بخاری صاحب کو نامزد کیا گیا تھا۔ بورڈ کے اجلاس میں بخاری صاحب نے اپنی لیاقت، انگریزی میں صلاحیت، اردو ادب اور فنونِ لطیفہ میں مہارت سے ریڈیو کے کنٹرولرنیونل فیلڈن کو بہت متاثر کیا۔ اسی بورڈ میں بخاری صاحب کے چھوٹے بھائی ذوالفقارعلی بخاری کا بھی انتخاب ہوا۔ نیونل فیلڈن نے دو ایک ماہ کے بعد ہی محسوس کیا کہ ریڈیو کے بڑھتے ہوئے کام سے تنہا عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں۔ اسی لیے نیونل فیلڈن نے وائسرائے لارڈ لنلتھگو سے جو رشتے میں اس کے ماموں تھے براہِ راست بخاری صاحب کی تقرری کے احکامات حاصل کروا لیے ۔ انہوں نے جون 1936ء میں ڈپٹی ڈائریکٹر کا چارج سنبھالا۔ 1939ءمیں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ جنگِ عظیم شروع ہونے سے قبل ہی نیونل فیلڈن بیمار ہو کرانگلستان چلا گیا اور بخاری اس کی جگہ قائم مقام کنٹرولر مقرر کردیے گئے اور 1940ء میں مستقل کنٹرولر مقرر کیے گئے۔ یہ عہدہ فروری 1943ء کو ڈائریکٹر جنرل میں تبدیل کردیا گیا۔

 

بخاری صاحب نے انڈین براڈکاسٹنگ سروس کا نام آل انڈیا ریڈیو منظور کروایا۔ زبان کے مسئلے کے سیاق و سباق سے آگاہی کے لیے چھہ تقاریر کا ایک سلسلہ نشر کیا۔ مقررین میں بابائے اردو مولوی عبدالحق، راجندر پرشاد (بعد میں ہندوستان کےپہلے صدر ہوئے)، ڈاکٹر تارا چند (الہہ آباد یونیورسٹی)، ڈاکٹر ذاکر حسین (بعد میں ہندوستان کے صدر ہوئے)، پنڈت برج موہن دتا تریا کیفی (اردو ادیب اور دانشور) اور ڈاکٹر آصف علی (سیاسی قائد) جیسی شخصیات شامل تھیں۔ موزوں الفاظ کے فوری طور پر استعمال کے لیے ایک ایسی فرہنگ کی ضرورت تھی جس کے الفاظ نہ اردو کے ہوں نہ ہندی کے بلکہ ہندوستانی (عوام فہم) ہوں۔ یہ چراغ حسن حسرت اور ایچ دت "سیانا” سے مرتب کراکر ڈاکٹر دوونشنی اور ڈاکٹر رفیق الدین سے نظرثانی کرائی ۔گئی۔ یہ فرہنگ 1944ء میں شائع ہوئی۔

 

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم، لیاقت علی خان نے امریکا اور کینیڈا کا دورہ کیا تو تقاریر لکھنے کے لیے بخاری صاحب کو بھی ساتھہ لے لیا۔ یہ تقاریر”Pakistan Heart of Asia” کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہیں

 

بخاری صاحب کو 1951ء میں اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب مقرر کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان کشمیر کا تنازعہ لے کر اقوام متحدہ میں گیا تھا۔ فلسطین کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں گرما گرم بحثوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ تیونس کی آزادی کا معاملہ اقوامِ عالم کے لیے اہمیت اختیار کرچکا تھا۔

 

اقوامِ متحدہ میں ان کی سب سے اہم تقریر 4 اپریل 1952ء کو سلامتی کونسل میں تیونس کی آزادی کے مسئلے پرفرانس کے خلاف گیارہ نکاتی شکایت پر تھی جس نے انہیں عرب اور ایشیائی ممالک کے قابلِ اعتماد ترجمان کی حیثیت عطا کردی۔ بخاری کی اس خدمت کو تیونس نے بھی تسلیم کیا اور اظہارِ عقیدت کے لیے وہاں پتھر کا ایک چھوٹا سا مینار بخاری کی یادگار کے طور پر تعمیر ہوا۔۔ 1952ءمیں انہیں سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی اور ایک ماہ تک اس ادارے کی صدارت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

 

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اقوامِ متحدہ کے اس وقت کےسیکریٹری جنرل داگ ہیمرشولڈ نے پطرس بخاری کو اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل انچارج تعلقات عامہ کے عہدے کے لیے منتخب کر لیا۔ ۔ 1958 میں کولمبیا یونیورسٹی میں انگریزی ادبیات کے پروفیسر کے طور پر تقرر ہوا لیکن موت نے یہ منصب سنبھالنےکی مہلت نہ دی۔

 

پطرس بخاری نے اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز سول اینڈ ملٹری گزٹ سے کیا تھا۔ جس میں وہ عموماً تنقیدی مضامین لکھتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے Peter Watkins کا قلمی نام اختیار کیا تھا۔ یہ ایک لحاظ سے مشن اسکول پشاور کے ہیڈ ماسٹر سے قلبی تعلق کا اظہار تھا۔ جس کے لفظ "پیٹر” کے فرانسیسی تلفظ نے پیر احمد شاہ کو پطرس بنا دیا۔ اس وقت سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر M.E. Hardy تھے جو بخاری کو ایک کالم کا سولہ روپیہ معاوضہ ادا کرتے تھے جس کی قدر اس زمانے میں تین تولہ سونے سے زائد تھی۔

( طیب علی شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ ..اصل میں پرنسپل Peter Watkins بخاری صاھب کو "پیر ” کہا کرتے تھے ..لفظ "پیر ” کو پرنسپل صاھب اس انداز سے بولتے گویا فرانسیسی کا لفظ "pierre ” ہو ..Pierre فرانسیسی میں "Peter ” کو کہتے ہیں جسکا فارسی متبادل "پطرس ” ہے)

 

پطرس بخاری نے پطرس کا قلمی نام سب سے پہلے رسالہ کہکشاں کے ایک سلسلۂ مضامین یونانی حکماء اور ان کے خیالات کے لئے استعمال کیا۔ ان کی بیشتر تحریریں کارواں، کہکشاں، مخزن، راوی اور نیرنگِ خیال میں اشاعت پزیر ہوئیں۔

پطرس بخاری کے ترجموں میں افسانے بھی ہیں، ڈرامے بھی، فلسفیانہ مضامین بھی ہیں اور اوپیرا بھی۔ انہوں نے مندرجہ ذیل تخلیقات کو اردو کا جامہ پہنایا،

 

مارخم (افسانہ) از رابرٹ لوئیس اسٹیونسن

گونگی جورو (ڈراما) فرنسیسی مصنف فرانسس رابیلے

صید و صیاد (افسانہ) ماخوذ از فرانسہ

تائیس (رومان) از اناطول فرانس

سیب کا درخت (افسانہ) از جان گالزوردی

نوعِ انسانی کی کہانی (دنیا کی ابتداء) از ہینڈرک فان لون

بچے کا پہلا سال از برٹرینڈ رسل

دیہات میں بوائے اسکاؤٹ کا کام (مکھیوں کا بادشاہ) از ایف ایل برین

 

گرچہ انہوں نے بہت کم لکھا ہے لیکن جو لکھا وہ خوب لکھا۔ ان کی تحریریں خالص ادبی مزاح کے بہترین نمونے ہیں۔ ان کے ہاں طنز کی گہرائی نہیں ، وہ صرف گدگداتے، چٹکیاں لیتے اور ہنساتے ہیں۔ مذاق ہی مذاق میں کام کی باتیں کہہ جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button