پنجاب لیبر کوڈ 2024ء نا منظور۔۔۔ نا منظور اٹھارویں ترمیم اور لیجیسلیٹو فہرست،

اٹھارہویں ترمیم سے صوبائی خود مختاری کے نام پر کنکریٹ لسٹ ختم کرتے ہوئے مختلف شعبہ جات بشمول لیبر قانون سازی کا اختیار صوبوں کو بھی منتقل کر دیا گیا اور وفاقی وزارت محنت و افرادی قوت (Labour and Man Power Over Seese Division Pakistanis) کو ختم کر دیا گیا۔

قومی اسمبلی سے منظور کردہ رائج الوقت قوانین محنت میں ترامیم و تنسیخ نا کی گئی اور تمام صوبوں نے الگ سے اپنے انڈسٹریل ریلیشنز و دیگر قوانین محنت بنا لئے،

اس بات کا بھی خیال نا رکھا کہ کنکرٹ فہرست کے ساتھ فیڈرل لیجیسلیٹو فہرست بھی موجود ہے اور قومی اسمبلی سے منظور شدہ قوانین اور قائم اداروں کے متصادم و متقابل قانون سازی کا حق حاصل نہیں ہے بلکہ وفاقی قانون ہی بالا دست اور پریویل کرے گا،

فیکٹری ایکٹ، انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ سنٹینڈنگ آرڈر(صنعتی و تجارتی اداروں کی ملازمت کے قانون 1968ء) انڈسٹریل ریلیشنز 1969ء ورکرز ویلفیئر فنڈز 1968، 1972ء کمپنیز پرافٹس ورکرز(پارٹیسپیشن) فنڈز 1971ء اور ازاں بعدازاں آئی ایل او کے منظور کردہ کنونشن کے تحت کی گئی قانون سازی کے بر خلاف و اختیار سے بالا دیگر متعلقہ فریقین کی مشاورت اور رضامندی کے بغیر تمام قوانین میں حاصل حقوق کو ختم کرتے ہوئے قوانین محنت کو یکجائی کے نام پر ٹھیکیداری، تھرڈ پارٹی، آکوپائر، کے ناموں سے الجھاؤ پیدا کرتے ہوئے، ملک کی اعلی ترین عدلیہ سپریم کورٹ پاکستان کی تشریح فیصلے جات کے خلاف بھی الجھاؤ پیدا کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں،

درست ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بھی قانون سازی کا اختیار حاصل ہے،

لیکن قومی اسمبلی سے منظور شدہ وفاقی قوانین کے متصادم صوبوں کو قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے اور وفاقی قوانین محنت ہی پریویل کریں گے، 25 قوانین محنت کی یکجائی کے فراڈ سے ملازمین محنت کشوں کو حاصل حقوق غصب کرنے کی کوئی صورت قابل قبول نہیں ہے،

لیبر کوڈ 2024ء کے نام پر حاصل قانونی حقوق کا خاتمہ ہر گز قابل قبول نہیں ہے،

آئی ایل او کے ذمہ داران سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے منظور کردہ کنونشن کے خلاف قانون سازی میں معاونت کے کردار پر نظرثانی فرمائیں اور محکمہ محنت اور حکومت پنجاب کے ایسے اقدامات کی پشت پناہی کی بجائے لیبر کے موقف پر غور فکر کی ترغیب دیں،

متعلقہ دیگر فریقین سے مشاورت کے بغیر جلد بازی سے پنجاب لیبر کوڈ 2024ء کے مطابق قانون سازی اور عملدرآمد کسی طور بھی پر امن صنعتی تعلقات کے لئے مفید نہیں ہو گا،

پنجاب لیبر کوڈ 2024ء کا ڈرافٹ جب ملازمین، محنت کشوں کی تمام تنظیموں سے رائے زنی کے لئے پیش کیا تو متفقہ طور پر اسے رائج الوقت قوانین محنت کے خلاف قرار دے کر مسترد کردیا تھا اور مطالبہ کیا کہ رائج الوقت قوانین محنت پر عملدرآمد کیا جائے ہمیں نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے جب پہلے قوانین پر عملدرآمد ہی نہیں کیا جا رہا تو نئے کی ضرورت کیوں کر پیش آ رہی ہے واضح ہے کہ ملازمین محنت کشوں کے بنیادی حقوق اور انجمن سازی کے قوانین کو بدلنا چاہتے ہیں اور ٹھیکیداری کے نظام سے حاصل حقوق غصب کرنا چاہتے ہیں،

جو کہ محنت کش طبقہ کو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے،

محکمہ محنت اور حکومت پنجاب اپنے اس یکطرفہ مزدور،ملازمین مخالف اقدامات سے باز رہے،

نا منظور ۔۔۔ نا منظور

پنجاب لیبر کوڈ 2024ء متفقہ طور مسترد،

نا منظور۔۔۔ نا منظور

منجانب۔ محمد اکبر(سینئر نائب صدر) متحدہ لیبر فیڈریشن پاکستان، بلوچ لیبر ہال قینچی امرسدھو فیروز پور روڈ لاہور۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button