ارشد ندیم کی کامیابی نے ایک بار پھر یہ سبق پڑھایا کہ آپ کے مشکل وقت میں کوئی آپ کے ساتھ نہیں کھڑا ہوگا، کوئی سہارا نہیں بنے گا، کوئی مدد کے لیے نہیں آئے گا، اس مشکل وقت میں اکیلے ہی سفر کرنا ہے، ہمت و حوصلہ اور امیدوں کو باندھے رکھنا ہے۔
ہاں، جب ان تمام تر مشکلات کے بعد آپ کامیاب ہوجائیں گے تو اس کا سہرا لینے ہر کوئی آئے گا، ہر کوئی انعامات کا اعلان کرے گا، ہر کوئی یہ بتانے اور جتانے کی کوشش کرے گا کہ ہم ہی تھے جو مشکل وقت میں ساتھ کھڑے تھے۔
جس ارشد ندیم کی کامیابی پر آج جشن منایا جارہا ہے، لاکھوں اور کروڑوں دینے کی باتیں ہورہی ہیں، وہی ارشد ندیم غربت کے اندھیروں میں بڑا ہوا، محنت مزدوری کرتا رہا، گھر میں کھانے تک کے پیسوں کی کمی تھی، مگر ان تمام تر مشکلات کے باوجود وہ ڈٹا رہا۔
پیرس اولمپکس سے محض 5 ماہ قبل ارشد ندیم نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ جس جیولین اسٹک کا استعمال کررہے ہیں اسے استعمال کرتے ہوئے 7 سے 8 سال ہوچکے ہیں اور وہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔ انہوں نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس حوالے سے نیشنل فیڈریشن اور کوچ سے کہہ چکے ہیں کہ اس حوالے سے کچھ کیا جائے۔
اب ذرا تصور کیجیے کہ جس جیولین اسٹک کی قیمت تقریباً 7 سے 8 لاکھ روپے تک تھی، ہمارے ہیرو کے پاس وہ خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے اور اس صورتحال میں ان کا مقدمہ لڑنے آئے ان کے مدِمقابل رہنے والے بھارت کے نیرج چوپڑا۔
نیرج نے کہا کہ ارشد ایک زبردست کھلاڑی ہیں، وہ ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں اس لیے حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان کی مدد کرے۔ نیرج نے یہ بھی کہا تھا کہ جیولین اسٹک بنانے والی کمپنیوں سے اگر بات کی جائے تو انہیں یقین ہے کہ وہ ارشد کے لیے اسپانسر کرنے میں خوشی محسوس کریں گی۔
اب آتے ہیں اس بات پر کہ نیرج کو کیوں ایسا لگا کہ پاکستانی حکومت کو ارشد کی مدد کرنی چاہیے؟ اس کا سیدھا اور واضح جواب یہ ہے کہ بھارتی حکومت ایسا کرچکی ہے۔
نومبر 2019 کو بھارت نے نیرج کو جنوبی افریقہ بھیجا اور وہاں ماہر جرمن کوچز کی نگرانی میں ان کی تربیت کروائی، اس پورے عرصے میں بھارتی حکومت نے تقریباً 7 کروڑ روپے (پاکستانی 20 کروڑ سے زائد) خرچ کیے تھے، اس کے علاوہ ڈھائی کروڑ روپے کی جیولین مشین بھی خریدی تھی جبکہ 177 جیولین اسٹک بھی فراہم کی تھیں اور اس تمام تر سرمایہ کاری کا نتیجہ ٹوکیو اولمپکس 2020 میں نظر آیا جب نیرج نے بھارت کو سونے کا تمغہ جتوا کر دیا۔ بھارت کی جانب سے نیرج کی ٹریننگ پر مسلسل کام کیا جارہا ہے اور جنوبی افریقہ کے علاوہ نیرج فن لینڈ، امریکا، ترکی سمیت کئی ممالک میں ٹریننگ کے لیے جاچکے ہیں۔
دوسری طرف ہمارا کھلاڑی ہے جو اولمپکس سے 5 ماہ قبل محض ایک اسٹک لینے کے لیے پریشان دکھائی دے رہا تھا۔
چلیں اگر ہم کھلاڑی کی معاشی طور پر مدد نہیں کرسکتے تھے تو کم از کم اس کی دیکھ بھال تو کی جاسکتی تھی۔ یہ جون کی بات ہے جب انہیں فن لینڈ میں ایک ایونٹ میں شرکت کے لیے جانا تھا مگر اس کے لیے پریکٹس لاہور کے حبس زدہ موسم میں کروائی گئی جس کی وجہ سے ان کے پٹھے کھینچ گئے اور وہ ایونٹ میں شرکت نہیں کرسکے تھے۔
ایک پوڈکاسٹ میں ارشد ندیم نے بہت واضح انداز میں کہا تھا کہ ان کا ایک ہی اسپانسر ہے اور وہ ان کے والد ہیں، جبکہ ان کے والد نے بھی کچھ چھپایا نہیں اور اپنے دل کی بات کھول کر رکھ دی۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ارشد اس مقام تک پہنچ گیا، مگر وہ کیسے پہنچا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ ارشد کے پاس ٹریننگ کا سامان لینے تک کے پیسے بھی نہیں ہوا کرتے تھے، ایسی صورت میں اس کے گھر والے، دوست اور گاؤں والے مل کر پیسے جمع کیا کرتے تھے۔
پھر گزشتہ سال منعقد ہونے والی ورلڈ اتھلیٹکس چیمپیئن شپ کا وہ منظر ہم کیسے بھول سکتے ہیں جب ارشد ندیم نے چاندی کا تمغہ اپنے نام کیا، مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ اس موقعے کسی پاکستانی آفیشل کے پاس قومی پرچم تک نہیں تھا۔
اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے، یہ حقائق ہیں اور یہ اس لیے ہرگز نہیں بتائے گئے کہ ہم ارشد کی جیت پر خوشی نہ منائیں، یہ تو صرف اس لیے بیان کیے گئے ہیں کہ پاکستان میں چھوٹے بڑے شہروں میں ناجانے کتنا ٹیلنٹ موجود ہے جو صرف اس لیے منظر عام پر نہیں آ پارہا کیونکہ ان کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ لہٰذا اقتدار میں موجود افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ 2028 میں ہونے والے اولمپکس کے لیے آج سے ہی تیار شروع کردیں، یہ طے کرلیں کہ اب کوئی اولمپکس ایسا نہیں گزرے گا جس میں پاکستان خالی ہاتھ رہے۔