سابق صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ حکومت آئین میں ترمیم نہیں آئین کی تدفین کررہی ہے، یہ آئین کو دفن کرنے والا بل ہے، کھلم کھلا مارشل ہو تو پتا ہوتا ہے کہ مارشل لاء ہے، پتا ہوتا ہےکہ کہاں سے کیا ہورہا ہے؟ آگے ایک پردہ رکھا ہوا ہے ، اس پر کتنے شکوک و شبہات ہیں ، لہٰذا ہم درخواست کرنے آئے تھا کہ پاکستان میں کئی چیزیں خطرناک بڑھتی جارہی ہیں، میں دوبارہ یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ بلوچستان کے حالات اچھےنہیں ہیں، ہم بلوچستان کی اصل جمہوری قوتوں کو اِتنا کنارہ کش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کے نتیجے میں وہاں پر ہتھیار کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، مسنگ پرسنز والی کیفیت پنجاب میں بھی دیکھ لیں، کوشش ہورہی تھی کہ بلوچستان کے مسنگ پرسنز کو برآمد کیا جائے، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ اب سارے پاکستان سے مسنگ پرسنز ہورہے ہیں۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سے سابق صدر و رہنما پی ٹی آئی ڈاکٹر عارف علوی نے منصورہ میں ملاقات کی جس کے دوران سپریم کورٹ کے حوالے سے مجوزہ آئینی ترمیم اور ملک کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا۔
نائب امرا جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، ڈاکٹر اسامہ رضی، سیکرٹری جنرل امیرالعظیم اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف بھی اس موقع پر موجود تھے۔ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر مملکت عارف علوی کا کہنا تھا کہ مجھے تعجب ہوتا ہے جب ڈی جی آئی ایس پی آر رہ رہ کر کہتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور ان کی طرف داری کرنے والے سارے تجزیہ نگار اُن کے حق میں باتیں کررہے تھے، میری فوج پر جھوٹ کا بھی الزام لگ رہا ہے، میری فوج پاکستان کا ستون ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری فوج کو نقصان نہ پہنچے، اور فوج کا کسی کے ساتھ اختلاف نہ ہو۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ جماعت اسلامی ان کا اپنا گھر ہے، انہوں نے کئی برس جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک موجودہ حالات میں کسی آئینی ترمیم کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی موجودہ حکومت جو دھاندلی سے وجود میں آئی ہے کو یہ حق حاصل ہے کہ ترمیم کے نام پر آئین کی تدفین کرے۔ ملک کی معیشت تباہ حال ہے، بلوچستان جل رہا ہے، مسنگ پرسن کا مسئلہ بلوچستان سے پھیل کر پنجاب تک آگیا ہے، کے پی میں بھی بدامنی ہے اور ان حالات میں حکومت ایک اور بحران پیدا کرنے کے درپے ہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے موقف کی تحسین کی اور کہا جماعت اسلامی اخلاقی لحاظ سے قدآور سیاسی جماعت ہے جس کی عوام قدر کرتے ہیں۔ قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کرتے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ حکومت جس آئینی ترمیمی بل کو پاس کرنا چاہتی ہے، جماعت اسلامی اِس پورے عمل کو کبھی بھی قبول نہیں کرے گی۔ جب ایک چیف جسٹس کی مدت ملازمت پوری ہورہی ہے، اور ایک نئے چیف جسٹس کو آنا ہے تو اس موقعے پر اتنی جلد بازی کرکے اور جن ہتھکنڈوں کے ساتھ یہ کام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اِس سے واضح طور پر حکومت کی توجہ سمجھ آتی ہے، اِس لئے اِس بل کو قطعی قبول نہیں کیا جاسکتا، جماعت اسلامی کا بڑا واضح موقف ہے ۔ جمہوری ملک میں کوئی بھی جماعت ہو اِس کو آئین کے مطابق پوری اجازت ہونی چاہیے کہ وہ جلسہ کرے، احتجاج کرے، اسلام آباد میں کرے یا جہاں بھی۔ آئین کے مطابق تمام آزادایاں ہر پارٹی کو میسر آنی چاہئیں، اور اگر یہی میسر نہیں ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ ایک طرف تو آئینی ترمیم کرنا چاہتی ہے، دوسری طرف اِس حکومت کی ساکھ کا بھی معاملہ ہے، آدھی سے زیادہ پارلیمنٹ فارم 47 پر آئی ہوئی ہے، فارم 45 پر فیصلہ ہوجائے تو اِن میں سے آدھے سے زیادہ ویسے ہی فارغ ہوجائیں گے، جب وہ جیت کر ہی نہیں آئے اور زبردستی مسلط کیے گئے ہیں، وہ پاکستان کے آئین میں مداخلت کریں اور آئین میں ترمیم کریں، اور ایسی تبدیلیاں کریں کہ جمہوریت کا تصور ہی تباہ ہوجائے، تو ایسا قطعی نہیں ہوسکتا، اِس کامطلب ہے کہ چند ہاتھوں میں پورا ملک چلا جائے اور پورا آئین چند ہاتھوں میں چلا جائے تو ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مشترکات پر پارٹیوں کا مل بیٹھنا ہمارا جمہوری حق ہے۔ جماعت اسلامی مجوزہ آئینی ترمیم کو کُلی طور پر مسترد کرتی ہے۔ موجودہ حالات میں جب کہ نئے چیف جسٹس کا تقرر ہونے والا ہے کسی صورت بھی حکومت کو زیب نہیں دیتا کہ وہ آئین کا حلیہ بگاڑے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ فارم 47 سے مسلط ہونے والی حکومت کی اتنے سنجیدہ معاملہ پر فیصلے لینے کی کریڈیبلیٹی بھی نہیں ہے اگر الیکشن دھاندلی کی تحقیقات ہوجائیں اور جوڈیشل کمیشن تشکیل پاجائے تو موجودہ پارلیمنٹ سے نصف سے زائد لوگ تو ویسے ہی فارغ ہوجائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جماعت اسلامی کسی صورت اس ترمیم کو قبول نہیں کرے گی۔ انھوں نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ شقوں کے مطالعہ میں الجھنے کی بجائے مکمل طور پر حکومتی ڈرافٹ کو مسترد کردیں۔ حکومت موجودہ حالات میں ایسے ہتھکنڈے اپنانے سے باز رہے جس سے مزید بحران پیدا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فوج، عدلیہ یا کوئی بھی ادارہ ہو بہتری اسی میں ہے کہ تمام اپنی آئینی حدود میں رہیں، ملک فوج اور عوام میں لڑائی کا متحمل نہیں ہوسکتا، تمام سٹیک ہولڈرز کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آئین میں طے کردہ اصولوں پر کاربند ہونے میں ہی سب کی بھلائی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ ڈاکٹر عارف علوی مدد لینے یا دینے کے لیے آئے ہیں اور نہ ہی یہ مدد لینے اور دینے کا سوال ہے، جماعت اسلامی نے اصولی موقف اپنایا ہے اور آئینی ترمیم کے حوالے سے ہم یہ پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی بالادستی کے حوالے سے اگر تمام سیاسی پارٹیوں میں احساس پیدا ہوجائے تو ملک آگے بڑھ سکتا ہے، جماعت اسلامی عوامی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور عوام کے حقوق کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔