پی اے سی میں انکشاف!
سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) میں گھوسٹ ملازمین کی نشاندھی کے لئے چیف سیکریٹری سندھ کو تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ کے ایم سی کے 12 ہزار سے زائد ملازمین کی حاضری کے لئے مینیوئل حاضری رجسٹر کے علاوہ ملازمین کی حاضری کے لئے کوئی جدید مکینزم موجود نہ ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ پی اے سی نے کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ ہونے کے خدشے کے پیش نظر کے ایم سی کے 12 ہزار سے زائد ملازمین کا ریکارڈ تمام ڈیٹا سمیت طلب کرلیا ہے۔
اجلاس!
منگل کو سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نثار احمد کھوڑو کی صدارت میں سندھ اسمبلی کی کمیٹی روم میں ہوا اجلاس میں کمیٹی کے اراکین خرم سومرو، قاسم سراج سومرو سمیت کے ایم سی کے میونسپل کمشنر افضل زیدی، ڈی جی آڈٹ لوکل گورنمنٹ سمیت دیگر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں کے ایم سی کی سال 2018ء سے سال 2021ء تک آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔
ملازمین ڈیٹا عدم فراہمی!
پی اے سی اجلاس میں کے ایم سی افسران کے ایم سی کے تمام ملازمین کی ڈیٹا، سروس بوک، پرسنل فائیلز کی تفصیلات اور سال 2018ء کی کے ایم سی کی اے ڈی پی کی تفصیلات فراہم نہیں کرسکے۔ اس موقعے پر پی اے سی چیئرمین نثار احمد کھوڑو نے کے ایم سی کے میونسپل کمشنر سے استفسار کیا کے کے ایم سی کے ٹوٹل کتنے ملازمین ہیں اور کتنے ملازمین ڈیوٹی پر آتے ہیں اور ملازمین کی حاضری چیک کرنے کے لئے کیام مکینزم موجود ہے؟ جس پر میونسپل۔کمشنر افضل زیدی نے بتایا کے کے ایم سی کے 12ہزار سے زائد ملازمین ہیں جن کی حاضری چیک کرنے کے لئے صرف حاضری رجسٹر موجود ہے جبکے بایومیٹرک سسٹم نصب نہیں ہے اور کے ایم سی کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹس اپنے اپنے شعبے کے ملازمین کی حاضری کی تصدیق کرتے ہیں اور کوئی گھوسٹ ملازم نہیں ہے۔
گھوسٹ ملازمین!
چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے کہا کے کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین اور گھر بیٹھے تنخواہیں لینے کا عمل کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔محکموں میں ویزا سسٹم بند ہونا چاہئے۔اور کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین کی موجودگی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟ اس لئے کے ایم سی ملازمین کی ڈیٹا سمیت ملازمین کی انٹرنل آڈٹ کرائی جائے۔پی اے سی نے کے ایم سی کے ہر ماہ کروڑوں روپے گھوسٹ ملازمین پر خرچ ہونے کے خدشے کے پیش نظر کے ایم سی کے تمام 12 ہزار سے زائد ملازمین کا ریکارڈ تمام ڈیٹا سمیت طلب کرلیا اور پی اے سی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں گھوسٹ ملازمین کی نشاندھی کے لئے چیف سیکریٹری سندھ کو تحقیقاتی کمیٹی قائم کرکے تحقیقات کروانے کی ہدایت کردی۔ چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے کہا کے شھر کراچی سندھ کا کیپیٹل پے اور کے ایم سی ملازمین کی حاضری صرف رجسٹر کے ذریعے مانیٹر کررہا ہے ،جدید دور میں بایو میٹرک نظام کیوں نہیں ہے۔ مینوئل حاضری رجسٹر ہونے سے ملازمین ایک دن آکر ایک ہفتے اور ایک ماہ کی حاضری لگا کر چلے جاتے ہیں۔ اگر تمام ملازمین ڈیوٹی پر آتے ہیں تو پہر آج ہی تمام ملازمین کا حاضری رجسٹر پیش کریں۔ کمیٹی کے رکن خرم سومرو نے کہا کے کے ایم سی کے بھت ملازمین ایسے ہیں جو دو دو محکموں میں کام کر رہے ہیں اور بھت سے تو ویزا پر ہیں اور ڈیوٹی نہیں کرتے۔کمیٹی کے ایک اور رکن قاسم سومرو نے کہا کے ہر ماہ کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین کی کروڑوں روپے تنخواہیں نکالی جارہی ہیں اور کے ایم سی پر گھوسٹ ملازمین کا الزام ہے؟
قبروں کی فروخت!
کمیٹی رکن خرم سومرو نے کہا کے کراچی کے قبرستانوں میں بھی کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین گورکن بن کر فی قبر 40 ہزار روپے میں فروخت کر رہے ہیں جس کا ثبوت میرے پاس موجود ہے۔ میونسپل کمشنر افضل زیدی نے پی اے سی کو بتایا کے کے ایم سی میں 300ملازمین ایسے تھے جو ڈبل تبخواہیں لے رہے تھے اور وہ کے ایم سی کے ساتھ ساتھ سندھ پولیس میں بھی کام کر رہے تھے ان کی نشاندھی کرکے ان کے خلاف کاروائی کی گئی ہے۔کمیٹی رکن خرم سومرو نے کہا کے کے ایم سی میں ملازمین کی ڈیٹا ڈجیٹل سسٹم پر منتقل کریں تاکے دو دو مقام پر سرکاری نوکری کرنے والوں کی نشاندھی ہو اور ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔
۔پی اے سی میں کراچی کے قبرستانوں میں فی قبر 40 ہزار روپے فروخت ہونے کا انکشاف ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے رکن خرم سومرو نے کے ایم سی افسران سے پوچھا کے کراچی میں کتنے قبرستان ہیں اور کراچی کے قبرستانوں میں کے ایم سی کے ملازمین گورکن بن کر فی قبر 40 ہزار روپے میں فروخت کرے رہے ہیں اور ایک گورکن نے مجھ سے رشتدار کی قبر کے لئے 40 ہزار روپے لئے۔ جس پر میونسپل کمشنر افضل زیدی نے بتایا کے کراچی کے قبرستان میں فی قبر کی سرکاری فیس کی پرچی صرف 300روپے ہے۔
کراچی کے ایم سی کے 46 پارکس!
پی اے سی اجلاس میں کمیٹی رکن قاسم سومرو نے افسران سے پوچھا کے کراچی میں کے ایم سی کے کتنے پارکس ہیں اور کتنے پارکس پر قبضہ ہے۔میونسپل کمشنر افضل زیدی نے پی اے سی کو بتایا کے کراچی میں کے ایم سی کے پاس 46 پارکس ہیں جن میں 90 فیصد پارکس فنکشنل ہیں اور کسی پر بھی قبضہ نہیں ہے۔
کچی آبادیاں!
۔ پی اے سی اجلاس میں کراچی کی 202نوٹیفائیڈ کچی آبادیوں کے 91 ہزار 495 گھروں اور 15لاکھ سے زائد کمرشل یونٹس کو ریگیولر نہ ہونے سے سندھ کے خزانے کو 21ارب سے زائد کا نقصان ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے جس پر پی اے سی نے کچی آبادیوں کی لیز اور رکوری کے متعلق محکمے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔