بلدیہ عظمی کراچی سندھ حکومت کا ذیلی ادارہ بن گیا

کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)بلدیہ عظمی کراچی جو کراچی کا ایک مقامی ادارہ ہے اس میں سندھ سے 18 افراد کو براہ راست ملازمت پر تعینات کردیا گیا ہے ان میں 16، 17 اور 18 گریڈ کے ساتھ ایک گریڈ 19 میں تعینات کیا گیا ہے۔ تمام افسران کی جوائننگ ہوگئی ہے۔ کسی ایک افسر کی تعیناتی پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا نہ ان افسران کی تقرر نامے کی جانچ پڑتال کی گئی۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میئر کراچی اور اپوزیشن جماعتیں جن میں جماعت اسلامی اور پی ٹی ائی دونوں شامل پیں سب ایسے خاموش ہیں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ زیادہ تر نئی تقرریاں ہیں، ان میں سیاسی بنیادوں پر سیاست دانوں اور انتظامی افسران کے رشتہ دار شامل ہیں جن میں سابق صوبائی وزیر داخلہ انور سیال کے بھائی بھی شامل ہیں۔ اس امر کی تصدیق ڈائریکٹر ہیومین رسورسس عبدلخالق شیخ نے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان افسران کی تعیناتی کے دیگر امور تیزی سے نمٹاتے جارہے ہیں،ان تمام افسران کا تعلق سندھ یونائیٹڈ گزیٹڈ آفیسر ایسوسی ایشن سے ہے جن کا کراچی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔حکومت سندھ کے اس عمل سے کراچی میں شدید بے چینی اور تعصب پیدا ہونے کے خدشات ہیں۔ ان سب کو بلدیہ عظمی کراچی کے خالی عہدوں یا خود ساختہ خالی عہدوں پر تعینات کیا جائے گا۔ان افسران کا تعلق جیکب آباد، لاڑکانہ، شکارپور، گھوٹکی، خپرپور، دادو اور سندھ کے دیگر شہروں سے ہے لیکن دلچسپ بات یہ کہ ان کا کوئی تعلیمی ریکارڈ کراچی کا نہیں ہے،لیکن ۔حکومت سندھ کے اس متعصبانہ رویے کے نتیجے میں بلدیہ عظمی کراچی اب صوبائی حکومت کا ایک ذیلی ڈپارٹمنٹ بن گیا ہے اور اب یوں لگتا ہے کہ صرف اسی مقصد کیلیئے ہی مرتضی وہاب کو میئر کراچی بنایا گیا تاکہ بلدیہ کراچی کو لوکل گورنمنٹ کے بجائے سندھ کے ماتحت کر دیا جائے،جو آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔

 

اسے ملک کے بلدیاتی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تصور کیا جارہا ہے،جو مقامی حکومت کے کونسل کی قرارداد کی بھی نفی کرتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بلدیاتی ادارے مقامی حکومت کے طور پر کنٹرول کریں گے۔ایک جانب KMC میں بڑے عرصے سے ملازمت کی بھرتیوں پر پابندی عائد ہے۔ بھرتی پر پابندی کے باعث ریٹائرڈ ہونے والے 4635 عہدے خالی ہے جن میں نچلے گریڈ کے ملازمین بھی شامل ہیں۔بلدیہ عظمی کراچی کے16931 مجموعی ملازمین کا بجٹ قانون کے مطابق موجود ہے جن پر مجموعی طور پر 21 ارب روپے سالانہ تنخواہوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔بلدیہ عظمی کراچی کے 1846ء کی بلدیاتی تاریخ میں وجود میں آنے کے بعد سے اور پھر 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد سے مقامی طور پر KMC میں مقامی بلدیاتی ادارے نگرانی کرتے رہے ہیں۔ KMC ایک مکمل خود مختار میٹرو پولیٹن کارپوریشن ہے،جسے حکومت سندھ نے اب مکمل تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کی ابتدا ملک کے سب سے بڑے بلدیاتی ادارے میں سندھ سے لوگوں کو لا کر غیر قانونی بھرتی کر کے شروع ہوچکا ہے اور اب مذید تقرریوں کے امکانات و خدشات موجود ہیں۔بلدیہ عظمی کراچی ان ملازمین پر سالانہ 21 ارب 82 کروڑ روپے سے زائد خرچ کررہا ہے۔بلدیہ عظمی کراچی میں ساڑھے چار ہزار سے زائد ریٹائرڈ یا فوت ہونے والوں کے عہدے خالی ہیں۔بلدیہ عظمی کراچی کے 34 محکوں سمیت 64 شعبہ جات میں مجموعی طور پر 16931 ملازمین ہیں۔ چارسال قبل لوکل بورڈ نے KMC میں ایس یو جی آفیسر کے چند عہدے کے بجائے 432 عہدوں پر تعیناتی کا حکم نامہ جاری کیا تھا تاہم وہ KMC کے قوانین اور افسران کے ردعمل کے باعث عملدرآمد روک دیا گیا تھا۔ اب لگتا ہے اس پر عملدرآمد کے لئے گراونڈ بنایا جارہا ہے۔قبل ازیں KMC کے بعض عہدوں پر ایڈمنسٹریشن گروپ کے گزیٹڈ افسران ہی تعینا ت ہوتے تھے۔ SUGO کے افسران کی تعداد بہت کم تھی لیکن اب میئر کراچی مرتضی وہاب کے دور میں ان افسران کی تعداد بڑھ گئی ہے اور تمام انتظامی عہدوں پر سندھ سے افسران تعینات ہوچکے ہیں۔میئر کراچی مرتضی وہاب کی ہدایت پر یہ تقرریاں جاری ہیں جبکہ سندھ کے کسی اضلاع میں کسی دوسرے ضلع کا ایک آدمی بھی مقامی اداروں میں بھرتی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ذرائع کے مطابق بلدیہ عظمی کراچی میں غیر قانونی بھرتیوں کا سلسلہ 1998 سے جاری ہے۔سابق وزیر اعلی سندھ لیاقت جتوئی کے دور میں ایک دن بھرتی پر پابندی کے دوران چار ہزار سے زائد ملازمین بھرتی ہوئے تھے۔ محکمہ بلدیات سندھ کے سیکشن آفیسر ابوبکر نے براہ راست تبادلے کے نام پر بلدیاتی اداروں میں سات ہزار سے زائد افراد بھرتی کیئے تھے اور سٹی حکومت کی تشکیل کے دوران بھی بھرتی کا عمل جاری رہا تھا۔اس وقت ملازمین کی اکثریت بھرتی ہوئے تھے۔ حال ہی میں بلدیہ عظمی کراچی میں نہ اشتہار، نہ درخواستیں،نہ ٹیسٹ،نہ انٹرویو لیکن پابندی کے باوجود 74 افراد کے غیر قانونی بھرتی ہونے کے انکشاف پر ہلچل مچ گئی ہے اور مذید دو سو افراد کے بھرتی ہونےکا پلان پکڑا گیا ہے جن میں سب کا تعلق سندھ سے ہے،ان میں کسی ایک فرد کا بھی تعلق کراچی سے نہیں ہے۔ان ملازمین کو سابق میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں کنٹریکٹ پر بھرتی اور ریگولرائز ہونے والے ساڑھے آٹھ سو ملازمین کی فہرست میں پیپلز پارٹی نے شامل کرانے کی تیاری کی ہے۔اس بارے میں کروڑوں روپے کی بندر بانٹ کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ان 74 ملازمین کے نام پر 20 سے 30 لاکھ روپے لوٹ مار کا پروگرام بنایا گیا ہے۔چھ سال پرانے ریکارڈ میں عارضی ملازمت،ریگولرائز کے ساتھ بینک اکاؤنٹس سمیت دیگر جعلی دستخطوں سے غیر قانونی کاروائی تیزی سے جاری ہے۔ ہر ملازم کو چھ سال کے واجبات کا لالچ بھی دیا گیا ہے۔جس کی مالیت بھی 30 کروڑ روپے سے زائد کی بنتی ہے جس کی بندر بانٹ کی توقع پیپلز پارٹی کے مقامی عہدیدار کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں میئر کراچی مرئضی وہاب کو بتایا گیا ہے کہ ان میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے رشتہ داروں کے نام شامل ہیں،تاہم معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے ان بھرتیوں کو فی الفور روک دیا ہے،شاید ان کے دل میں کراچی کا درد اٹھ گیا ہے لیکن پیپلز پارٹی کے بعض اہم شخصیات کے ملوث ہونے پر تحقیقات کا حکم نہیں دیا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ بلدیہ عظمی کراچی میں غیر قانونی ملازمت کے جھانسے اور فراڈ کا بڑا اسکینڈل منظر عام پر آنے کے باوجود اب اس پر پردہ ڈالنے اور خاموشی اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاہم اس اسکینڈل کی چہ میگوئیوں کی بازگشت تمام سرکل میں جاری ہے۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملازمت کے غیر قانونی کھیل میں ڈپٹی میئر کراچی سلمان مراد، پیپلزپارٹی کے سٹی کونسل میں گروپ لیڈر کرم اللہ وقاصی،مشیر خاص میئر کراچی سکندر بلوچ کے ساتھ بعض حاضر و ریٹائرڈ افسران بھی شامل ہیں جن میں بدعنوانی میں برطرف ہونے والے طاہر جمیل درانی مرکزی کردار ہیں۔بھرتی کے اس گھناؤنے کھیل میں میئر کراچی مرتضی وہاب کے قریبی افراد ملوث بتائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اس عمل کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا۔اس غیر قانونی کام کے مرکزی کردار طاہر جمیل درانی پہلے بھی بلدیہ عظمی کراچی کے براہ راست پلے رول میں بھرتی کرنے والوں میں ملوث رہے ہیں اور اب تاریخ دہرائی جارہی ہے۔27 سال قبل سابق وزیر اعلی سندھ لیاقت جتوئی کے دور میں ایک دن بھرتی میں پابندی کے دوران ایم کیو ایم نے ساڑھے آٹھ ہزار افرارد بھرتی کرائے تھے،اور اب پہلے سے سابق میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے ساڑھے آٹھ سو ملازمین کو ریگولرائز کی نئی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ میئر کراچی کی ہدایت پر KMC ملازمین کا ریکارڈ ورلڈ بینک کے پروجیکٹ کلک کے سپرد کیا گیا تھا اب ان خالی آسامیوں پر براہ راست بھرتیوں کا آغاز اور گھناؤنا کھیل شروع ہوچکا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جس طرح ماضی میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ضرورت سے زیادہ بھرتی کرنے کی وجہ سے پی آئی اے اور اسٹیل ملز تباہ و برباد ہو گیا ہے بالکل اسی طرح اب کے ایم سی کا بھی وہی حشر ہونے والا ہے لیکن حیرت اور افسوس اس بات پر ہے کہ کراچی کی محبت کے تمام دعویدار اس گھناؤنی سازش پر خاموش ہیں شاید انہیں بھی حصہ بقدر جثہ ملنے کی توقع ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button