یہ 25 اکتوبر 1947ء کی بات ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی عید الاضحیٰ تھی۔ قائد اعظم اور دیگر سرکاری عمائدین نے کراچی میں بندر روڈ پر مولوی مسافر خانہ کے نزدیک مسجد قصاباں /عیدگاہ میں ادا کرنا تھی، جہاں مولانا ظہور الحسن درس نے نماز پڑھانی تھی۔
نماز کا وقت آ گیا مگر قائد اعظم عید گاہ نہیں پہنچے۔
اعلیٰ حکام نے مولانا ظہور الحسن درس سے درخواست کی کہ وہ نماز کی ادائیگی چند منٹ کیلئے مؤخر کر دیں۔ قائد اعظم پہنچنے ہی والے ہیں.
مولانا ظہور الحسن درس نے فرمایا ’’میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں‘‘ چناں چہ انہوں نے صفوں کو درست کر کے تکبیر فرما دی۔
پہلی رکعت شروع ہوئی ہی تھی کہ قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ نماز شروع ہو چکی تھی۔ قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی کہ وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے ان کی درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کو بھی نماز کے بعد علم ہُوا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ تھا۔ نماز کے بعد جب نمازیوں کے علم میں یہ بات آئی تو پوری عید گاہ قائد اعظم زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔
قائد اعظم نمازیوں سے گلے ملنے کے بعد آگے گئے۔ انھوں نے مولانا ظہور الحسن درس کی جرأت ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علما کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔
مولانا ظہور الحسن درس 9 فروری 1905 کو کراچی میں مولانا عبدالکریم درس کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ آپ 1940 سے 1947 تک آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن اور اہم عہدوں پر فائز رہے۔ قائداعظم آپ کو سندھ کا بہادر یار جنگ کہا کرتے تھے۔ مولانا ظہور الحسن درس نے 14 نومبر 1972ء کو کراچی میں وفات پائی.
عقیل عباس جعفری : پاکستان کرونیکل