بلدیہ عظمٰی لاہور کو پارکنگ فیس کی مد میں 75 کروڑ سے زائد کا نقصان،رواں سال آمدن زیرو،لاہور پارکنگ کمپنی کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ

لاہور پارکنگ کمپنی 14 سالوں میں ایم سی ایل کی75 کروڑ روپے سے زائد کی نادہندہ ہو گئی۔بلدیہ عظمٰی لاہور کے نوٹیسیز اور ریمانڈر بھی اثر انداز نہ ہوسکے۔میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور کی ذیلی ایجنسی لاہور پارکنگ کمپنی زیادہ طاقتور ثابت ہوئی ہے جس کی طرف سے 14 سالوں میں ایک مرتبہ بھی پورا شیئر ادا نہیں کیا گیا ہے۔مالی سال 2011 ۔12 سے 2023۔24 کے مصدقہ اعداد وشمار کے مطابق معاہدہ کے مطابق لاہور پارکنگ کمپنی کی طرف سے شیئر ادا نہ کرنے کی وجہ سے ایم سی ایل کو 73 کروڑ68 لاکھ 13 ہزار روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔رواں مالی سال بھی 7 کروڑ روپے ہدف کے مقابلے میں ایک پائی جمع نہیں کروائی گئی ہے۔بلدیات ٹائمز کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 13 سالوں کو بلدیہ عظمٰی لاہور کا پارکنگ فیس کی مد میں ہدف ایک ارب 80 کروڑ روپے ہے جبکہ لاہور پارکنگ کمپنی سے صرف 34 کروڑ 31 لاکھ 87 ہزار روپے وصول کئے جا سکے۔اب تک خسارہ 70 فیصد سے زائد ہے۔مالی سال 2011۔12 میں 10 کروڑ ہدف تھا جو 13 سال بعد پارکنگ فیس ، پارکنگ اسٹینڈز، گاڑیوں، موٹرسائیکلوں میں اضافہ کے باوجود بڑھانے کی بجائے کم کر کے 7 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔مالی سال 2012۔13 اور 2014۔15 میں 13 کروڑ ہدف رہا جس کو اس کے دوسالوں بعد 50 فیصد کم کر کے 6 کروڑ 50 لاکھ روپے کر دیا گیا۔لاہور پارکنگ کمپنی کو نوازے میں شعبہ شہری سہولیات اور فنانس بھی پیش پیش ہیں۔14 سالوں کے مکمل اعداد وشمار کےمطابق 2011۔12 میں ایم سی ایل نے پارکنگ فیس کی مد میں 10 کروڑ روپے کا بجٹ میں ہدف رکھا وصولی 6 کروڑ 72 لاکھ 35 ہزار جبکہ خسارہ 3 کروڑ 27 لاکھ 65 ہزار روپے رہا۔مالی سال 2012۔13 میں 13 کروڑ روپے ہدف اور وصولی صرف 3 کروڑ 62 لاکھ 89 ہزار روپے ہو سکی اور خسارہ 9 کروڑ 37 لاکھ 11 ہزار روپے پر چلا گیا۔مالی سال 2013۔14 میں 13 کروڑ روپے کے مقابلے میں لاہور پارکنگ کمپنی سے 6 کروڑ94 لاکھ 69 ہزار روپے وصول کئے جا سکے۔ایم سی ایل بجٹ خسارہ 6 کروڑ 5 لاکھ 31 ہزار روپے ریکارڈ کیا گیا۔مالی سال 2014۔15 میں پارکنگ فیس کا ہدف 13 کروڑ روپے سے 3 کروڑ کم کر کے 10 کروڑ روپے کر دیا گیا لیکن وصولی 5 کروڑ 99 لاکھ 54 ہزار ہوئی اور خسارہ 4 کروڑ 46 لاکھ روپے رہا۔مالی سال 2015۔16 کے بجٹ میں پارکنگ فیس کے ہدف میں ریکارڈ کمی کی گئی اور 6 کروڑ 50 لاکھ روپے انکم ٹارگٹ مقرر کیا گیا لیکن صرف 3 کروڑ 80 لاکھ 59 ہزار روپے لاہور پارکنگ کمپنی سے نکلوائے جا سکے اور خسارہ 2 کروڑ 69 لاکھ 41 ہزار روپے رہا۔مالی سال 2016۔17 میں 6 کروڑ 50 لاکھ ہدف کے مقابلے میں لاہور پارکنگ کمپنی نے ایم سی ایل کی مکمل چھٹی کرا دی اور وصولی زیرو رہی۔مالی سال 2017۔18 میں مستقل طور پر پارکنگ فیس کا ہدف 7 کروڑ روپے سالانہ کر دیا گیا ۔جس پر 6 کروڑ 98 لاکھ 80 ہزار روپے وصولی اور 63 لاکھ 12 ہزار روپے خسارہ رہا۔مالی سال 2018۔19 میں 7 کروڑ ہدف کے مقابلے میں وصولی کم ہو کر 3 کروڑ 61 لاکھ 92 ہزار روپے پر آ گئی اور خسارہ 3 کروڑ 38 لاکھ 8 ہزار روپے تک پہنچ گیا ۔مالی سال 2019۔20 میں 7 کروڑ روپے ہدف اور صرف ایک کروڑ 90 لاکھ 42 ہزار روپے جمع ہوئے خسارہ 5 کروڑ 9 لاکھ 58 ہزار روپے رہا۔مالی سال 2020۔21 میں لاہور پارکنگ کمپنی نے 7 کروڑ روپے ہدف کے مقابلے میں ایک مرتبہ پھر ایم سی ایل کو ایک روپیہ کا بھی شیئر ادا نہ کیا اور بلدیہ عظمٰی لاہور زیرو کر دیا۔مالی سال 2021۔22 میں 7 کروڑ روپے ہدف کے مقابلے میں صرف 22 لاکھ 31 ہزار روپے وصولی اور 6 کروڑ 77 لاکھ 69 ہزار روپے کا شارٹ فال ریکارڈ کیا گیا۔مالی سال 2022۔23 میں 7 کروڑ ہدف اور وصولی 48 لاکھ 28 ہزار تک رہی جو صرف 7 فیصد ہے اور خسارہ 6 کروڑ 51 لاکھ 72 ہزار روپے رہا۔مالی سال 2024۔25 میں بھی لاہور پارکنگ کمپنی نے کمال کیا اور ایم سی ایل کو 7 کروڑ روپے کے مقابلے میں صرف 29 لاکھ روپے شیئر دے کر نڈھال کر دیا۔رواں مالی سال بھی بلدیہ عظمٰی لاہور کی پارکنگ فیس کی مد میں ریکوری زیرو ہے۔یہ بات اہم ہے کہ جب سے لاہور پارکنگ کمپنی بنی ہے نہ تو پنجاب حکومت، نہ ہی محکمہ بلدیات اور ایم سی ایل نے اس کا منصفانہ پارٹی آڈٹ کروایا ہے۔یہ کمپنی ذیلی ایجنسی ہونے کے باوجود ایم سی ایل تو دور محکمہ بلدیات سے بھی طاقتور بن چکی ہے جس کی بڑی وجہ اس کا سیاسی ادارہ بن جانا،کرپشن اور ٹھیکیدار مافیا کا کنٹرول ہے۔لاہور پارکنگ کمپنی میں تمام اہم انتظامی ،فنانشل، فیلڈ وغیرہ کے اہم عہدوں پر سیاسی افسران براجمان ہیں جو ہر حکومت لائن فٹ کرنے کے ماہر ہیں۔بعض ارکان اسمبلی کے فرزند اور رشتے دار ہیں۔خود بھی ٹھیکیداری کر رہے ہیں۔اس کمپنی کے سابق ایم ڈی تاثیر احمد جس نے یہاں تک ادارہ کو تباہ کیا وہ اس وقت پنجاب کیٹل مارکیٹ مینجمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے ایم ڈی کے طور پر اربوں روپے کا بجٹ انجوائے کر رہے ہیں۔اور پنجاب کی بکر منڈیوں کے پاکستان کے طاقتور ترین ٹھیکیداروں کے منظور نظر ہیں۔

لاہور میں منظور شدہ پارکنگ اسٹینڈز کی تعداد کم اور غیر قانونی پارکنگ اسٹینڈز کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے جن سے حاصل ہونے والی آمدن سرکاری خزانے میں جمع ہونے کی بجائے کرپشن کی نذر ہو رہی ہے۔پارکنگ فیس جو دگنا اور بیشتر اسٹینڈز پر تین گنا وصول کی جا رہی ہے وہ افسران اور ملازمین کے ساتھ ٹھیکیداروں کی کرپشن کا اس سے بھی بڑا ذریعہ ہے ۔یہ بات اہم ہے کہ لاہور پارکنگ کمپنی 14 سالوں میں کوئی بڑا منصوبہ مکمل نہیں کر سکی ہے۔نہ ہی پرائیویٹ پارکنگ اسٹینڈز کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔پارکنگ کی سہولیات فراہم کرنے میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی نہ کوئی پارکنگ پلازہ بنایا جا سکا ہے جو پارکنگ پلازہ بنے ہیں وہ ایل ڈی اے کے ہیں۔اب پارکنگ کمپنی اپنے پر دباؤ ختم کر کے میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور پر پارکنگ پلازے تعمیر کرنے کے لئے حکومتی توجہ مرکوز کر رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button