لائیوسٹاک اور فشریز ڈیپارٹمنٹ کو مزید مستحکم بنانے کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر، ورلڈ بینک کے تعاون سے سندھ لائیوسٹاک اینڈ ایکواکلچر ڈیولپمنٹ پروجیکٹ (SLADP) کا آغاز کردیا گیا ہے اور پروجیکٹ کووآرڈینیٹر سمیت دیگر سٹاف کی تقرری کا مرحلہ مکمل کرلیا گیا ہے. عالمی بینک کے وفد کی صوبائی وزیر لائیو اسٹاک اینڈ فشریز محمد علی ملکانی کے آفس میں ملاقات کی, اور محکمے میں بہتری کے لیے ورلڈ بینک کے پروجیکٹ کے بابت تبادلہ خیال کیا. وفد میں عالمی بینک میں زرعی شعبے کے اسپشلسٹ اور سندھ واٹر امپروومنٹ پروجیکٹ کے ٹیم لیڈر مسٹر آلیور ڈیوران (Oliver Duran) اور عالمی بینک میں لائیو ایکوا کے ٹیم لیڈر محسن روز جبکہ محکمے کے سیکریٹری ڈاکٹر کاظم حسین جتوئی, ڈی جی سندھ انسٹیٹیوٹ آف اینیمل ہیلتھ (SIAH) ڈاکٹر نظیر حسین کلہوڑو اور دبگر افسران شریک تھے. اس موقع پر صوبائی وزیر محمد علی ملکانی نے وفد کو کراچی آنے پر خوش آمدید کیا.اس اہم منصوبے پر عملدرآمد کی بابت اعلیٰ سطحی اجلاس میں تفصیلی غور و فکر کیا گیا۔ منصوبے کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے، ڈاکٹر نظیر حسین کلہورو نے اجلاس کو بتایا کہ SLADP کا مقصد سندھ کے لائیوسٹاک اور ایکواکچر سیکٹرز میں مسابقتی، جامع اور موسمیاتی لحاظ سے بہتر ترقی کو یقینی بنانا ہے۔ سندھ ایگریکلچرل گروتھ پروجیکٹ (SAGP) سے حاصل شدہ کامیابیوں کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے، SLADP نے پیداواریت، آمدنی اور ماحولیاتی چیلنجز کو حل کرنے کے لیے گزشتہ مداخلتوں پر بنیاد رکھی ہے۔ اس منصوبے کے بلند اہداف میں پیداوار میں 30 فیصد اضافہ، کسانوں کی آمدنی میں 30 فیصد اضافہ، اور گرین ہاؤس گیس (GHG) کے اخراج میں 16 فیصد کمی شامل ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر ملکانی نے اس منصوبے کو سندھ کے مویشی منظرنامے کو جدید بنانے کا ایک انقلابی موقع قرار دیا۔ انہوں نے کہا، "لائیوسٹاک اور ایکواکلچر سندھ کے لاکھوں لوگوں کی زندگی کا سہارا ہیں۔ یہ منصوبہ جدت، مساوات، اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے ہماری وابستگی کی مثال ہے۔ ورلڈ بینک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ کی مدد سے ہم چھوٹے کاشتکاروں اور خواتین کسانوں، جو اس شعبے کے اہم حصہ ہیں، کی خوشحالی کو یقینی بنائیں گے۔” ڈاکٹر نظیر حسین کلہورو نے منصوبے کی جامع حکمت عملی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ SLADP میں کئی اجزاء شامل ہیں، جن میں ہر ایک لائیوسٹاک اور ایکواکچر ویلیو چینز کے اہم پہلوؤں کو حل کرتا ہے۔ پہلا جزو ادارہ جاتی صلاحیت کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہے، جبکہ دوسرا جزو ڈیری، گوشت، ایکواکچر، اور خواتین کی قیادت میں چلنے والے کاروباروں کے لیے مضبوط ویلیو چینز کے قیام کے لیے وقف ہے۔
منصوبے کے تحت اہم مداخلتوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کے 650 گروپس کی تشکیل اور مالی اعانت شامل ہے۔ ان گروپس میں 300 ڈیری کوآپریٹوز، 180 گوشت پیدا کرنے والے یونٹس، 100 ایکواکچر گروپس، اور 70 خواتین کی قیادت میں قائم یونٹس شامل ہیں۔ ہر گروپ کو جدید تربیت، مالی اعانت کے نظام، اور مارکیٹ تک رسائی فراہم کی جائے گی تاکہ مساوی ترقی اور مالی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس موقع پر عالمی بینک کے مسٹر آلیور ڈیوران (Oliver Duran) نے کہا کہ اس منصوبے کی تفصیلی تیاری کا ذکر کیا اور بتایا کہ گوکہ جولائی میں اس منصوبے کو عالمی بینک میں جمع کروایا گیا اور اکتوبر میں اس کی منظوری دی گئی, اس حساب سے ہم اس منصوبے کی عملدرآمد میں دو ماہ پیچھے ہیں جس میں اب ہمیں تھوڑا تیزی سے تمام مرحلے طئے کرنے ہونگے.انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک, محکمہ لائیوسٹاک اور فشریز ڈپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر متعدد تکنیکی مشنز کے ذریعے منصوبے پر تعاون کرتی رہے گی۔ اب تک ان مشنز نے شعبے کی مشکلات، مستفید ہونے والوں کی صلاحیت، اور پائیدار طرز عمل کے امکانات کا جائزہ لیا ہے. صوبائی وزیر نے کہا کہ یہ منصوبہ صنفی شمولیت کو بھی ترجیح دیتا ہے، جس میں لائیوسٹاک اور ایکواکچر سیکٹرز میں خواتین کاروباری افراد کو بااختیار بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ خواتین کی قیادت میں قائم کوآپریٹوز کے ذریعے ترقی اور جدت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا جائے گا۔
اجلاس کے اختتام پر، وزیر محمد علی ملکانی نے ورلڈ بینک کے وفد ممبران کو اس شراکت داری کو زیادہ سے زیادہ سماجی اور اقتصادی اثرات کے لیے استعمال کرنے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ منصوبہ نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان میں پائیدار ترقی کا ایک ماڈل ثابت ہوگا.