لاہور۔ صدر ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان سعدیہ راشد نےکہا ہے کہ پاکستان میں ماں اور بچے کی صحت کے مسائل صرف طبی نہیں بلکہ یہ سماجی معاشی اور نظام صحت سے جڑے ہوئے گہرے چیلنجز ہیں اگرچہ وقتاً فوقتاً پالیسیز اور منصوبہ بندی کی جاتی رہی ہے تاہم عملی میدان میں وہ تسلسل وسعت اور شفافیت کم ہی دیکھنے میں آتی ہے جس کی ان نازک جانوں کو اشد ضرورت ہے، دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز کی کمی تربیت یافتہ دائیوں اور نرسوں کی قلت اور ہنگامی صورتحال میں اسپتالوں تک محدود رسائی ایسی تلخ حقیقتیں ہیں جن کا آج بھی لاکھوں خواتین کو سامنا ہے شہری علاقوں میں اگرچہ سہولیات نسبتاً بہتر ہیں مگر وہاں بھی غیر مساوی طبی رسائی نجی ہسپتالوں کا معاشی دباؤ اور متعدد سماجی دباؤ خواتین کی صحت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ماں کی صحت کو عمومی صحت کی پالیسیوں میں ثانوی حیثیت دینا خاندانی منصوبہ بندی میں تسلسل کی کمی اور زچگی کے بعد دیکھ بھال کو نظر انداز کرنا ایسے عوامل ہیں جو نہ صرف نوزائیدہ کی صحت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ماں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن کے تھیم "صحت مندآغاز- امید افزامستقبل” کے موضوع پر شوریٰ ہمدرد کے اجلاس میں اپنے خصوصی پیغام میں کیا اجلاس میں ڈبلیو ایچ او کے ہیڈ آف پنجاب ڈاکٹر جمشید احمد سابق وزیر صحت پنجاب و سابق چیئرمین پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی ڈاکٹر سعید الہی ڈاکٹر میاں محمد اکرم، قیوم نظامی ، برگیڈیئر ریاض احمد طور، حکیم راحت نسیم سوہدروی، حکیم مرغوب احمد ہمدانی، فرح ہاشمی ، ڈاکٹر ابصار احمدسمیت دیگر ماہرین نے شرکت کی۔۔۔
زیر نظر تصویر میں ڈاکٹر جمشید احمد خطاب کر رہے ہیں ان کے ہمراہ ڈاکٹر ابصار احمد ، قیوم نظامی ڈاکٹر میاں محمد اکرم ڈاکٹر سعید الہی بیٹھے ہیں
رپورٹ:سید علی بخاری