خواجہ دل محمد

ہمارے بچپن میں بزرگ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے، ہم نے تو دل کا حساب پڑھا ہوا ہے۔

بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ دل ۔۔۔۔ خواجہ دل محمد تھے۔۔۔ ریاضی دان اور ماہر تعلیم ہی نہیں شاعر بھی ۔

خواجہ دل محمد 9 فروری 1883 ء کو لاہور کے کوچہ گیان ، عقب کشمیری بازار میں خواجہ نظام الدین کے گھر پیدا ہوئے اور 27 مئی 1961 ء کو سرطان کی بیماری کے باعث انتقال ہوا۔ ۔۔

خواجہ دل محمد پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد 9 جولائی 1907 کو اسلامیہ کالج لاہور میں ریاضی کے لیکچرر مقرر ہوئے ۔ 1944 میں اسی کالج سے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ان کے نامور شاگردوں میں کشمیر والے شیخ عبداللہ ، عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر اور پروفیسر تاج محمد خیال ، شیخ زاہد حسین (سابق گورنر سٹیٹ بنک) شامل تھے۔

 

خواجہ دل محمد نے ریاضی کی 32 کتابیں لکھیں۔ یہ اس قدر عام فہم اور شگفتہ انداز میں تھیں کہ ریاضی سے گھبرانے والے بھی بآسانی ریاضی پڑھنے لگے۔ یہ اس قدر مقبول ہوئیں کہ پنجاب کے علاوہ علی گڑھ ، بمبئی اور مدراس یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی منظور ہو گئیں۔

 

ایک اہم بات ، جس سے اس زمانے کی رواداری کا بھی پتہ چلتا ہے ۔۔۔ یہ ہے کہ خواجہ دل محمد نے جہاں سورۃ فاتحہ کی منظوم تفسیر ’’روح قران‘‘ کے نام سے لکھی، وہاں ہندؤں کی مقدس کتاب’’بھگوت گیتا‘‘

کا ’’دل کی گیتا‘‘ کے نام سے اور سکھوں کی مذہبی کتابوں ’’جپ جی صاحب ‘‘ اور ’’سُکھ منی صاحب ‘‘ کے بھی منظوم ترجمے کئے۔ اندازہ کریں ، آج کوئی ایسا شخص اسلامیہ کالج کا استاد اور پرنسپل رہ سکتا ہے ؟

 

خواجہ دل محمد پنجاب یونیورسٹی کے فیلو اور سنڈیکیٹ کے رکن رہے۔ بیس سال تک مسلسل لاہور میونسپلٹی کے رکن بھی رہے ۔ لاہور میں دیال سنگھ کالج کے ساتھ وہ سڑک جو نسبت روڈ سے آ کر ملتی ہے ، دل محمد روڈ کہلاتی ہے۔ ہمارے ایک بڑے گلوکار انجنئیرنگ میں ڈاکٹر مجد پرویز ان کے نواسے تھے ۔

 

خواجہ دل محمد کی تصانیف

درد ِ دل 1938

آئینہ اخلاق (پچاس اخلاقی نظمیں) 1932

روح قرآن (سورة فاتحہ کی منظوم تفسیر) 1947

بوستان ِ دل 1960

صد پارہِ دل(رُباعیات) 1946

ستاروں کا گیت1917

گلزار معنی (اُردو لغت)

پریت کی ریت (دوہے)

دِل کی گیتا (گیتا کا منظوم ترجمہ) 1944

جپ جی صاحب (منظوم ترجمہ) 1945

سُکھ منی صاحب (منظوم ترجمہ) 1945

روحانی نغمے 1953

دِل کی بہار (بچوں کے لیے نظمیں)

 

مولانا عبدالمجید سالک نے اپنی خودنوشت سوانح "سرگزشت” میں انجمنِ حمایت اسلام، لاہور کے ایک جلسے کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے

 

” خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے اور اسی سال انہوں نے ریاضی میں ایم – اے کر کے برادرانِ وطن کے اس طعنے کا مؤثر جواب مہیا کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ خواجہ صاحب کی ایک خصوصیت خاص طور پر حیرت انگیز تھی کہ وہ ریاضی جیسے خشک مضمون کے ساتھہ ہی ساتھہ بحرِ شاعری کے بھی شناور تھے۔ اس سال انہوں نے ایک پاکیزہ مسدس "کلک گہر بار” کے نام سے پڑھی جس پر بہت پُرشور داد ملی اور انجمن کو چندہ بھی خوب ملا۔

اس اجلاس میں شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد بھی دہلی سے آئے ہوئے تھے، سر پر چوگوشیہ ٹوپی، چہرے پر تعبّس، سفید ڈاڑھی، لمبا سیاہ چغہ جو غالباً ایل ایل ڈی کا گاؤن تھا۔ آپ نے تقریر شروع کی تو دل آویز اندازِ بیان کی وجہ سے سارا جلسہ ہمہ تن گوش ہوگیا۔ آپ نے فرمایا، خواجہ دل محمد بہت ذہین اور لائق نوجوان ہیں اور شاعری فی نفسہ بُری چیز نہیں۔ حسان ؓ بن ثابت حضرت رسولِ خدا ﷺ کے شاعر تھے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو دماغ زیادہ عملی علوم کے لیے موزوں ہے اسے شعر کے بیکار شغل میں کیوں ضائع کیا جائے۔ اِس پر حاجی شمس الدین اٹھے اور کہا کہ شعر چونکہ مسلمہ طور پر نثر سے زیادہ قلوب پر اثر کرتا ہے اس لیے یہ بھی مقاصدِ قومی کے حصول کے لیے مفید ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کی نظم پر انجمن کو اتنے ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا جو دوسری صورت میں شاید نہ ہوتا۔

اس پر مولانا نذیر احمد کسی قدر تاؤ کھا گئے اور کہنے لگے۔ حاجی صاحب چندہ جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں جو شخص خدمت میں ثابت قدم رہتا ہے اس کی بات قوم پر ضرور اثر کرتی ہے۔ یہ کہا اور عجیب دردناک انداز سے اپنی چوگوشیہ ٹوپی اتاری اور فرمایا کہ یہ ٹوپی جو حضور نظام خلد اللہ ملکہ؛ کے سامنے بھی نہیں اتری محض اس غرض سے اتارے دیتا ہوں کہ اس کو کاسۂ گدائی بنا کر قوم سے انجمن کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ فقیر آپ کے سامنے موجود ہے، کشکول اس کے ہاتھہ میں ہے، دے دو بابا، تمھارا بھلا ہوگا‘‘

 

خواجہ دل محمد کا ایک شعر

موتی جس کو چاہیے، جل میں ڈبکی کھائے

ندی کنارے رونے سے موتی ہاتھہ نہ آئے

 

خواجہ دل محمد کی بچوں کیلئے نظم

چندا مامو ں

 

چندا ماموں آتے ہیں

دودھ کٹوری لاتے ہیں

 

ننھے پیارے بچوں کو

سُکھھ کی نیند سلاتے ہیں

 

باندھ کے ڈوری کِرنوں کی

جھولے خُوب جھلاتے ہیں

 

ننھے ننھے پھولوں پر

موتی سے برساتے ہیں

 

خواب کی میٹھی دُنیا کی

ہم کو سیر کراتے ہیں

 

سیڑھی رکھ کر کرنوں کی

ندی آن نہاتے ہیں

 

موجوں میں لہراتے ہیں

ڈبکی خوب لگاتے ہیں

 

ہالا کھینچ کے بادل پر

سادھو سے بن جاتے ہیں

 

چِتلی چتلی بدلی میں

چھپ کر دَوڑ لگاتے ہیں

 

سونے والی دُنیا پر

چپکے چپکے جاتے ہیں

 

ہنسنے والے تاروں میں

گیت خوشی کے گاتے ہیں

(دِل کی بہار)

 

برادرم عاشق جعفری بتاتے ہیں کہ خواجہ صاحب نے گرنتھ صاحب کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا جو اس وقت کے سکھ زعماء نے بہت پسند کیا تھا.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button