پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ اور پنجاب سوشل سیکورٹی کے فنڈ کو کسی دوسرے پروگرام کےلئے استعمال نہ کیا جائے،مزدور تنظیموں اور لاہور پریس کلب کا مشترکہ اعلامیہ

پنجاب ورکرز ویلفیئرفنڈ اور پنجاب سوشل سیکورٹی کے فنڈ کو کسی دوسرے پروگرام کےلئے استعمال نہ کیا جائے۔پنجاب گورنمنٹ راشن کارڈ سکیم خصوصی فنڈ سے بنائے اورمحکموں کو بد انتظامی، شاہ خرچی اور سرخ فیتہ سسٹم سے نجات دلائے۔مزدور قوانین پر من و عن عملدرآمد کرایا اورپنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ میں زیر التوا 37000درخواستوں کو فوری نمٹایا جائے۔

یہ اعلامیہ لاہور پریس کلب کے اشتراک سے پنجاب بھر کی مزدور تنظیموں کے ایک نمائندہ اجلاس مورخہ 27 مئی میں جاری کیا گیا ۔اِس موقع پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری اور لاہور پریس کلب کے صدرارشد انصاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مزدور حقوق کےلئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مشترکہ جدو جہد کی جائے گی انھوں نے مذید کہا کہ قلم مزدور اور صنعتی اور کمرشل اداروں کے مزدور سر اور دھڑ کی ماند ہیں لہذا قلم کے مزدور آپ کے ساتھ ہیں ۔میٹنگ کے آرگنائزر مزدور رہنما محمد حنیف رامے نے اپنے خطاب میں پنجاب سوشل سیکورٹی اور ورکرز ویلفیئر فنڈ میں مزدوروں کے جمع شدہ اربوں روپئے سے راشن کارڈ سکیم کے اجرا بارے تفصیل سےآگاہ کیا اورکہا کہ سوشل سیکورٹی کے اندر رجسٹرڈ بارہ لاکھ مزدوروں میں سے چار لاکھ مزدوروں کو ابھی تک سوشل سیکورٹی کارڈ ہی جاری نہیں کئے گئے یعنی چار لاکھ رجسٹرڈ مزدور علاج و معالجہ کے حق سے مکمل طور پر محروم ہیں جبکہ کارڈ کے حامل مزدوروں کو بھی صحت کے عالمی معیار کے مطابق ادویات اور دیگر سہولیات میسر نہیں۔درجنوں بڑے شہروں میں سوشل سیکورٹی ہسپتال نہیں،پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ کے تحت مزدوروں کی فلاع کی سکیموں سے متعلقہ ہزاروں درخواستیں زیر التوا ہیں،مزدور اپنے حق کے حصول کےلئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں ایسے حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ مزدوروں کے جمع شدہ فنڈ سے راشن کارڈ جاری کرنے کی بجائے محترمہ مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب چار لاکھ رجسٹرڈ مزدوروں کو سوشل سیکورٹی کارڈ جاری کراوئیں تاکہ چار لاکھ خاندان (جیسا بھی ہے) علاج و معالجہ کے حق سے مستفید ہو سکیں اور وزیر اعلیٰ صاحبہ اپنے ویژن کے مطابق علاج و معالجہ کے معیار کو بہتر کروائیں۔انھوں نے کہا کہ راشن کارڈ سکیم سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں اور ہم یہ کہتے ہیں کہ صرف اور صرف مزدوروں کے اپنے فنڈ سے قائم اداروں سے راشن کارڈسکیم بنانا مناسب نہیں لہذا اِس کےلئے پنجاب حکومت علیٰحدہ رقم مختص کرئے۔انھوں نے صحا فی رہنماوں کی طر ف سےمزدور حقوق کےلئے مشترکہ جدوجہد کرنے کے عزم کا خیر مقدم کیا اور اِس بات کو مزدوروں کےلئے خوش آئند قرار دیا۔اِس موقع پراجلاس میں شریک پنجاب اور لاہور کی مزدور تنظیموں کے رہنماوں نے محمد حنیف رامے کے موقف کی مکمل طور پر تائید کی اور انھیں یقین دلایا کہ پنجاب بھر کی مزدور تنظیمیں افسر شاہی کے مذموم ارادوں کو ناکام بنا دیں گیئں۔اجلاس میں شریک پاکستان مسلم لیگ (ن) لیبر ونگ کے چیئرمین سردار خالد ملک نے اپنے خطاب میں مزدور نمائندگان کو یقین دلایا کہ ہم اپنی سطح پر پارٹی قیادت کو آج کے اجلاس میں جن نکات ،تحفظات اور مطالبات کی نشان دہی کی گئی ہے سے آگاہ کریں گے۔ انھوں نے کہا پاکستان مسلم لیگ کی حکومت مزدوروں کے بہترین مفاد کی فراہمی کا عزم رکھتی ہے اور مزدوروں کو مایوس نہیں ہونے دے گی۔ لاہور پریس کلب کے رہنما اعجاز مرزا نے اپنے خطاب میں کہا کہ پنجاب بھر کی مزدور تنظیموں نے اب قوانین محنت پر من و عن عملدرآمد کی ٹھان لی ہے لہذامزدوروں کو راشن کارڈ کے نام پہ بھکاری نہ بنایا جائےبلکہ انھیں اِن کی محنت کا صحیح معاوضہ دیا جائے اورباوقار طریقہ سے زندگی بسر کرنے کا غصب شدہ حق دیا جائے۔با با محمد لطیف انصاری اور ذوالفقار علی نے اپنے اپنے خطاب میں محکمہ سوشل سیکورٹی پنجاب کے ا فسران کی بد عنوانیوں بارے باقاعدہ ا عداد و شمار کے ساتھ تفصیل بیان کی اور مطالبہ کیا کہ اگر سوشل سیکورٹی پنجاب کو بچانے ہے تو کمیشنر سوشل سیکورٹی پنجاب کو فوری طور پر عہدہ سے ہٹانا ضروری ہے۔بھٹہ مزدور رہنما محمد شبیر نے کہا کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ اور سوشل سیکورٹی کا محکمہ بھٹہ مزدوروں کو مکمل طور پر نظر انداز کیئے ہوئے ہے اور سوشل سیکورٹی اور دیگر حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے، ریلوے ورکرز یونین (اوپن لائن) کے جنرل سیکرٹری ظفر اعجازملک نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان ریلوے کے مزدور بھی صنعتی،کمرشل اداروں کے مزدوروں کی جدو جہد میں شانہ بشانہ ہوں گے۔اور انھیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری چوہدری حسیب الرحمٰن نے کہا کہ اِس اہم ایشو کے بارے میں اجلاس کا انعقاد قابل ستائش ہے اور ہم مکمل طوراپنی مزدور برادری کے ساتھ ہیں۔

اجلاس میں پنجاب یونین آف جرنلسٹ کے رہنما قمر الزمان بھٹی،عامر سہیل رانا،لاہور پریس کلب کے رہنما خواجہ نصیر،سنیئرممبر سعید اختر،شہزاد خاموش،پرویز شفیع،عاطف پرویزاور دیگر ممبران نے بھی شرکت کی جبکہ شریک مزدور فیڈریشنز اور یونینزکے نمائندگان

میں متحدہ لیبر فیڈریشن کے محمد اکبر،آل پاکستان ٹیکسٹائل ،پاورلومز اینڈ گارمنٹس ورکرز فیڈریشن کے نیاز خان،پاکستان مسلم لیگ ن لیبر ونگ کے سردار خالد ملک اور چوہدری شہزاد انوراور دیگر ساتھی، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری چوہدری حسیب الرحمٰن ، ریلوے ورکرز یونین (اوپن لائن) کے جنرل سیکرٹری ظفر اعجازملک ،پاکستان یونائٹیڈ ورکرز فیڈریشن کے چوہدری محمد یعقوب،چوہدری نسیم اقبال،چوہدری سعد نسیم،پاکستان فوڈ ورکرز فیڈریشن کے محمد سرور بابا،رانا ندیم جاوید (گوجرانوالہ)،مودت حسین (بھائی پھیرو)،آل پاکستان لوکل گورنمنٹ ورکرز فیڈریشن کے نصیرالدین ہمایوں ملک اور ساتھی گوجرانوالہ،آل پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز کے حسن منیر بھٹی،لیبر قومی موومنٹ پاکستان کے بابا محمد لطیف انصاری(فیصل آباد)محمد شہباز، حافظ محمد آصف،محمد ارشد،حیدر بٹ اور دیگر ساتھی،پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی نصرت بشیر ظفر، شبیر احمد،مزدور اتفاق یونین شاہ تاج شوگر ملز منڈی بہاوالدین کے محمد سرفراز بلوچ اور محمد منشاء گوندل،آل پاکستان فیڈریشن آف یونائٹیڈ ٹریڈ یونینز کی ثمینہ عرفان(گجرات)، سعید انجنیرنگ ورکرز یونین گوجرانوالہ کے محمد نعیم بٹ،پنجمن ورکرز یونین پنجاب کے افتخار احمد اور چوہدری وسیم انور،پاکستان بھٹہ مزدور یونین پنجاب کےمحمد شبیر (ٹوبہ ٹیک سنگھ) فرح ناز،کوکا کولا بیوریجز ورکرز یونین پاکستان کے نصراللہ چوہان، یونی لیور والز آئس کریم ورکرز یونین سی بی اے کے منور جمیل،آل قصور پاور لومز ورکرز یونین قصورکے ذوالفقار علی،آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے عبیدالرحمٰن (شیخوپورہ) مزدور مرکز کوٹ لکھپت لاہور کے علیم احمد خان،اسلم پرویز اور تنویر حیدر زیدی،مالمو فوڈز ورکرز یونین لاہور کے محمد ارشد اور جاوید اقبال،مزدور کسان پارٹی کے کامریڈ عرفان علی ، ملک خالد اور ساتھی شریک تھے۔

مزدور رہنماوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ سوشل سیکورٹی کے اعداد و شمار کے مطابق اِس وقت سوشل سیکورٹی پنجاب میں بارہ لاکھ ورکرز رجسٹرڈ ہیں جن میں سے آٹھ لاکھ ورکرز کو سوشل سیکورٹی کارڈ جاری کئے گئے ہیں جبکہ چار لاکھ ورکرز کو پنجاب ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹیٹیویشن میڈیکل کی سہولیات فراہم ہی نہیں کرتا ،بہت ساری صنعتی اضلاع میں ہسپتالوں کی ضرورت ہے مگر وہاں ہسپتال نہیں بنائے گئے۔اِسی طرح ورکرز ویلفیئر فنڈ میں تقریباََ سینتیس ہزار درخواستیں زیر التوا ہیں اور سال ہا سال سے ورکرز سکالر شپ،میرج گرانٹ اور ڈیتھ گرانٹس کےلئے چکر لگا نے پر مجبور ہوتے ہیں اور ورکرز کے سرمایہ سے تنخواہیں لینے والے آ فیسرز ورکرز کی بات سننے کےلئے تیار نہیں ۔لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ افسر شاہی جو ڈیپوٹیشن پر آتی ہے اُن کو صرف اپنی مراعات میں دلچسپی ہوتی ہے وہ ادھر آ کر نئی گاڑیاں خریدتےاور اپنی مراعات لینے میں مصروف عمل رہتے ہیں اور وہ حکومت کو ایسے پروگرام بنانے کا مشورہ دیتے ہیں جن سے اُن کا مفاد وابستہ ہوانھیں حکومت کی بدنامی یا نیک نامی سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا۔لہذا محترمہ مریم نواز صاحبہ وزیر اعلیٰ پنجاب مطالبہ ہے کہ سوشل سیکورٹی اور پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈجیسے ادارے جن مقاصد کےلئے قائم کئے گئے تھےاُن سے وہی کام لیا جائےاور قانون میں کسی قسم کی ترمیم نہ کی جائےاگر سوشل سیکورٹی کے قانون میں ترمیم کی گئی تو پنجاب کے محنت کش اس کو قبول نہیں کریں گے۔بلکہ افسر شاہی کے اِس اقدام کے خلاف جدو جہد کریں گے۔مقررین نے کہا کہ پنجاب ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹیٹیویشن، ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ای او بی آئی میں گورنمنٹ کی جانب سے کوئی کنٹری بیوشن نہیں دی جاتی اور حکومت کی یہ پالیسی بھی ہے کہ ریاست کا کام ادارے چلانا نہیں ہے جیسا کہ اب ہسپتالوں،تعلیمی اداروں اور واپڈہ جیسے اداروں کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کرنا چاہتی ہے۔تو اگر حکومت کی اِس پالیسی کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر ورکرز سے متعلقہ اداروں کی سربراہی کرنے کا گورنمنٹ کے آفسران کوکوئی حق نہیں ہے اور اِن اداروں کو چلانے کی ذمہ داری مزدوروں اور مالکان کے نمائندوں کا حق بنتا ہےکیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ جن کا سرمایہ ہے وہ دفتروں کے چکر لگائیں اور اپنی گرانٹس کےلئےدھکے کھائیں لہذا اِن اداروں کو افسر شاہی سے نجات دلانے کی اشد ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم راشن کارڈ سکیم سے انحراف نہیں کرتے اور اِس بابت ملتمس ہیں کہ یہ سکیم خصوصی فنڈ کے تحت چلائی جائے اور مذید کہاکہ سوشل سیکورٹی پنجاب اور پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ کے بارے میں کوئی بھی پالیسی یا پروگرام بنانے سے پہلے وزیر اعلیٰ صاحبہ مزدوروں کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں اور کنٹری بیوشن دینے والے سٹیک ہولڈرز کا موقف ہر صورت سنیں کیونکہ انھیں اُن کا موقف جانے بغیر بیوروکریسی کو وسیع تر اختیارات دینے سے پہلے سے استحصال کا شکار مزدور مزید برباد ہو جائیں گے۔مقررین نے کہا کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نواز شریف سوشل سیکورٹی ہسپتال لاہور پاکستان مسلم لیگ نواز کا بڑا کارنامہ ہے مگر دوسرے ڈویژن کے لاکھوں مزدور بنیادی طبعی سہولیات سے محروم ہیں لہذا پنجاب حکومت نواز شریف سوشل سیکورٹی ہسپتال لاہورجیسے ہسپتال دوسرے ڈویژن میں قائم کرئے تاکہ محنت کش طبقہ جن کے فنڈ سے یہ ادارے چل رہے ہیں انھیں صحت جیسی بنیادی سہولت بھی میسر ہو سکے۔اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ بھٹہ،کھیت،اشاعتی اور نشریاتی اداروں کے ورکرز کو بھی قوانین محنت کے مطابق سوشل سیکورٹی، ای او بی آئی اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔

جواب دیں

Back to top button