اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے سے انسان اپنے خالق کی سب سے بہترین تخلیق ہے۔دنیا وجہاں جس کے تصرف میں ہیں تمام کائنات زیرنگیں،اعلیٰ و ارفع صلاحتیں ودیعت کی گی کہ علم و حکمت و دانش سے فلک کی بلندیوں پر محوپرواز ہو سکے اور ہوا بھی ایسا کہ انسان نے قدرت کے خزانوں کو ڈھونڈنکالنے کے لیے حیرت انگیز کمالات چشم فلک نے دیکھے۔چپھے خزانوں کی جستجواور تلاش میں سرگرداں نت نئے علوم و فنون کے اسرار و رموزآشکار ہوئے اور نئی سے نئی دنیا آبادہوتی چلی گئی۔ابتدائے آفرنیش سے ہی انسانی جبلت میں جستجو لگن اور تلاش کا عنصر موجود ہے۔جو انسان کو کسی پل چین سے نہیں رہنے دیتا ۔ہر دن محترک رہنا زندگی کی علامت ہے۔زندگی زندہ دلی کا نام ہے ۔زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑی نعمت ہے۔جس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔کسی قسم کی کوتاہی بہت بڑے نقصان کا باعث بنتی ہے۔اس لیے ہرقدم اور لمحہ بڑی احتیاط کا متقاضی ہے۔زرا سی بے احتیاطی سے زندگی کی رونقیںماند پڑ سکتی ہیں۔زندگی کو زندگی کے انداز میں جینا ہی زندگی ہے۔ہمارے معاشرے میںبگڑتی ہوئی معاشی اور سماجی صورتحال سے بھیانک مسائل جنم لے رہے ہیں۔دولت کی ہوس،ریل پیل،نمودونمائش،اقربا پروری،رشوت،سفارش میرٹ کا نظرانداز ہونا ان سب برائیوں نے معاشرے کی جڑوںکو کھوکھلا کر دیاہے۔اخلاقی قدروںکو روند ڈالا گیا ہے۔ہنستے بستے گھر ویران ہوگئے دیکھتے ہی دیکھتے مسکراٹیں بکھیرتے نوجوانوں کے چہرے مرجھاگئے۔اُن کے سہانے خواب اب عذاب بن چکے ہیں۔یہ زندگی خوبصورت اوررنگین ہے۔متوازن طرز عمل کے ذریعے زندگی کو بہتر سے بہتر کر سکتے ہیں۔یہ حقیقت بھی طشت از بام ہو چکی ہے کہ زندگی کا سب سے بڑا دشمن خود انسان ہی ہے۔انسانی خوایئش لامتناہی ہیں۔ہزاروں خواہشیںایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلیـــ”۔ہر انسان اپنی زندگی میںخواہشات کی تکمیل چاہتا ہے۔جب بدقسمتی سے انسان کی خواہشات پوری نہیںہوتی توناکامی کی صورت میںبہت سارے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔جن میںمالی،جسمانی،روحانی اور نفسیاتی مسائل سرفہرست ہیں۔ان مسائل کا برائے راست اثر انسانی شخصیت پر پڑتا ہے۔بہت سارے انسان تو مشکلات کا مقابلہ کرکے اُن پر قابو پالتے ہیں۔جبکہ کچھ لوگ ان مسائل میںبُری طرح الجھ جاتے ہیں۔اپنے آپ کو سزا دینے کیلئے وہ اپنی ذات کو ہی قصور وار ٹھیراتے ہیں۔ایسے میں اُنھیںسہارے کی ضرورت ہوتی ہے، اُس سہارے کو تلاش کرتے ہوے وہ مختلف منشیات کا نشہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔نشے کی دلدل میں ایسے دھنستے چلے جاتے ہیںکہ جہاںوہ ہوش وحواس کھوبیٹھتے ہیں۔اپنی ذات کی نفی کرکے ایک الگ دنیا بسا لیتے ہیں۔نشے کو سب کچھ سمجھتے ہیںاور اس میں عافیت محسوس کرتے ہیں اپنی ذات میں مگن دنیا و مافیا سے بے خبر بدمست پڑے رہتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ مدہوش کو ہوش میں لانے اور اُن کی بحالی کے اقدامات ناکافی ہیں۔لگتا یہ ہے کہ متعلقہ اداروے بھی نشہ کی حالت میں ہیں اس لیے تو نشہ کرنے والوں کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے ۔ایک حالیہ تحقیق کے مطابق روزانہ تقریباََ 1200 لڑکے لڑکیاں سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔پاکستان میں ہر سال تمباکو نوشی سے ایک لاکھ60 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹے ہیں۔انسان کو وقت سے پہلے موت کی وادی میںلے جانے والے اسباب میں تمباکونوشی کا پہلا نمبر ہے۔سگریٹ نوشی بھی کسی نشے سے کم نہیںہے۔یہ لڑکے اور لڑکیاں زیادہ تر امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں یعنی ایلیٹ کلاس فیشن کے طور پر نشہ کرتے ہیں اس لیے نشے کی وجہ سے اکثراوقات ان میں لڑائی جھگڑے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔انگلش میڈیم گرامر سکولوں میں نشی طلباء کی تعدادبہت زیادہ ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سکول اور کالج انتظامیہ کو صرف اپنی بھاری بھرکم فیسوں سے غرض ہے ۔اپنے طلباء کی ذہنی اور فکری تربیت کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے ۔یہ سکول کم اور جہالت کے ڈھیر زیادہ لگتے ہیں۔تعلیم کا تو مقصد ہی تربیت ہوتا ہے انسان کی تراش خراش اس طرح کی جائے کہ وہ ایک ذمہ دار شہری بن سکے لیکن یہاں پر تعلیم کے نام پر صرف دھوکا ہے نوجوان نشے کی علت میں مبتلا ہو کہ ملک و قوم پر بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔غصہ ،چڑ چڑاپن ،مایوسی،فرسڑیشن،ڈپریشن،بے چینی،اکتاہٹ سے نفسیاتی وذہنی مریض بن جاتے ہیں۔اس قدر نشے کے عادی بن جاتے ہیں کہ اگرانھیںمنشیات نہ ملے تو انھیںزندگی کے لالے پڑجاتے ہیں۔پھر زندہ رہنے کیلئے نشے کی ضرورت ہوتی ہے۔اُن کے لیے نشہ سب کچھ ہوتاہے وہ ایک زندہ لاش کی مانند ہوتے ہیں۔اُنکی بے بسی پر ترس ہی کھایا جا سکتا ہے۔دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ متعلقہ اداروں کے سامنے یہ سب کچھ ہورہا ہے اوروہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔قوم کے نوجوانوںکو موت کے منہ میںجاتادیکھ رہے ہیں۔ چرس،افیون، ہیروئن،بھنگ، آئس،کوکین، گانجا،
الکوحل، شیشہ،حقہ،گٹکا،گلو اصمدبونڈ سمیت منشیات کی21 سے زائد اقسام کے نشے باآسانی دستیاب ہیں۔کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں۔انسدادِمنشیات کے تمام اداروںکو بھی معلوم ہے کہ نشہ کی فراہمی کسی طرح کی جا رہی ہے۔لیکن مجال ہے کہ روک تھام کا انتظام کیا جائے۔نوجوان نسل کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔بچوں اور نوجوان نسل میں منشیات کا بڑھتاہوا استعمال پورے معاشرے کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔بچے نشے کی لت میں مبتلا ہو کر خطرناک جرائم کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔حکومت اور انتظامیہ کی اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیںہے۔صرف بیانات ہیںاورکچھ نہیں۔گھر سے باہر کی فضاتوکسی صورت بچوںکیلئے موافق نہیںہوسکتی۔شروع شروع میںکھیل تماشہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔پھر رفتہ رفتہ منشیات کی اندھیر نگری میں داخل ہو جاتے ہیں۔13سے 17سال کے طلبہ میں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ان میں طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔75فیصد بچے نشہ مزے کے لیے کرتے ہیں بعد میں اس کے عادی بن جاتے ہیں۔
نشہ کرنے کی لاتعدادوجوہات ہیں۔ایک وجہ ہمارا رویہ ہے۔گھر میں والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ برتائو،بے جالاڈ پیاراور دولت کی فروانی بچوں کو نشے سمیت اور بہت ساری برائیوںکی طرف دھکیل دیتے ہیں۔شیشہ او رحقہ کے ذریعے نشہ کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہواہے۔یہ لمحہ فکریہ ہے۔کنسلٹنٹ انسداد منشیات مہم سید ذوالفقار حسین کا کہنا ہے کہ سگریٹ انڈسٹری صر ف اپنے کاروباری فائدے کے لیے نئی نسل کو تمام عمر کے لیے اپنا ٹارگٹ بناتی ہے۔ مصنوعی نیکوٹین جیسے نشہ کی ایک نئی لہرجنم لیا ہے۔ای سگریٹ اور ویپنگ ہماری نوجوانوں نسل کوتباہ کررہی ہے۔اس وقت دنیا میں37ملین نوجوانوں ای سگریٹ اور(vaping)کا استعمال کرر ہے ہیں۔جن کی عمروں کا تناسب 13سے 15سال کے درمیان ہے۔(HIV)ایڈز کے بڑھنے کی ایک وجہ نشہ کرنے والے افراد شامل ہیں۔جن کی تعداد میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔یہ لوگ استعمال شہد زیادہ ترسرنجوں، انجکشن کے ذریعے منشیات لیتے ہیں۔ایک سروے رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب کی جیلوں میں منشیات استعمال اور اس کے کاروبار کرنے والے ملزموں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔لوگوں میں راتوں رات امیر بننا معاشی اور معاشری مسائل کی وجہ سے منشیات کااستعمال بڑھ رہا ہے۔ڈرگ ایڈوائزری ٹریننگ کی رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق سال2023میں لاہور شہر میں 560بے گھر نامعلوم منشیات کے عادی افرادسڑکوں اور فٹ پاتھوں پر اپنی زندگی کی بازی ہارگئے۔
انسدا دمنشیات کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو منشیات کے بڑھتے ہوئے پھیلائو کو ایک سنگین مسئلہ سمجھنا ہو گا۔ انسدا د منشیات کے لیے پالیسی وضع کر کے اس پر موثر اقدامات اُٹھاناہوں گے۔حکومت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کرمنشیات کی روک تھام کے لیے متفقہ جامع لائحہ عمل مرتب کرے اورانتظامیہ اس پر عملدرآمد کے لیے موثراقدامات کرے۔نشہ کرنے والوں کو واپس زندگی کی طرف لاناانسانیت کی خدمت ہے۔گھروں کو اجڑنے سے بچانا ہے۔مایوسی کو اُمید کی روشنی میں تبدیل کرنا ہے۔زندگی کو نئے انداز سے جینے کی لگن بیدار کرنی ہے۔زندگی سے پیار کرنا اور اس پیارو محبت کو عام کرنا ہے۔تاکہ ہمارے معاشرے میںخوشگوار فضا پیدا ہو سکے اور ہمارا وطن ترقی کی راہ پر گامزن ہو نوجوانوں کا مستقبل محفوظ اور روشن بن سکے منشیات سے انکار ،زندگی سے پیار کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔26 جون کو دنیا بھر میں عالمی یوم انسداد منشیات اس عزم کے ساتھ منایا جارہا ہے کہ دنیا کو منشیات سے پاک کرنے کیلئے مشترکہ کوششوں میں معاشرے کے تمام طبقات خصوصاً نوجوانوں کوشامل کیاجائے تاکہ اس مہلک وباء سے بچائو اور علاج کے لیے آگاہی کے مختلف پروگرام ترتیب دینے چاہیے ۔ان تمام اقدامات میں غیر ملکی اور ملکی انسدادِ منشیات کے اداروں کاتعاون بھی شامل ہو۔اس طرح مربوط حکمت عملی اختیار کرنے سے ہم اپنے بچوں اورجوانوں کا مستقبل کوتاریک ہونے سے بچا سکتے ہیں اور وطن عزیزی کو منشیات کے ناسور سے پاک کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔