مجھے عربی نہیں آتی، میں نے قرآن پاک کا مطالعہ بھی بہت تفصیل اور گہرائی سے نہیں کیا ہوا۔ یہ ایک کمزوری اور نالائقی ہے، مگر چونکہ امر واقعہ ہے اس لئے بیان کر دیا۔
البتہ میں ایک مناسب درجے کا قاری ضرور ہوں، کتابیں پڑھنے سے بہت دلچسپی رہی ہے اور بہت بچپن سے ۔ اردو کے علاوہ انگریزی کی وساطت سے بہت سی اچھی کتب پڑھیں، بہت اچھے نثرنگاروں کو بھی پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اردو کے سحرانگیز نثرنگاروں کو پڑھا۔ مجھے خطبات، تقاریر پڑھنے سے بھی دلچسپی رہی ہے، دنیا کے بہت سے نامور خطیبوں کی گفتگو پڑھی ہے۔ تراجم کے ذریعے عرب خاص کر جاہلی عرب کے نامور خطبیوں، مقررین اور اہل دانش کی گفتگو پڑھی۔ ان میں سے بعض خطبے مسحور کن تھے۔
عربی خطبوں کے حوالے سے ایک حیران کن اور ممتاز نام سیدنا علی کرم اللہ وجہ کا ہے ۔ نہج البلاغہ کا میں نے اردو ترجمہ پڑھا، مفتی جعفر حسین نجفی نے کیا تھا۔ وہ ہمارے ایک بہت محترم سینئر دوست ملک فیض بخش کے سسر تھے ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، کیسے خزانے سے اردو قارئین کو انہوں نے متعارف کرایا۔ سیدنا علیؓ کے خطبات کی روانی، فصاحت وبلاغت کے کیا کہنے۔آدمی ششدر رہ جاتا ہے۔
جناب رسالت ماب ﷺ کے خطبات بھی پڑھے۔ اردو ڈائجسٹ نےایک زمانے میں رحمتہ العالمین نمبر چھاپا جس میں جواہر نبوی ﷺ کے عنوان سے بہت دلچسپ اور بھرپور انتخاب دیا گیا۔
اہل سنت احادیث کی جن کتابوں کو معتبر سمجھتے ہیں انہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے، اس میں حدیث کی چھ کتب شامل ہیں، صیح بخاری، صیح مسلم، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن ابودائود، سنن ابن ماجہ ۔ ان میں سے کچھ احادیث ایسی ہیں جو صحاح ستہ کی ایک سے زائد کتب میں ہیں۔ ایک صاحب نے ان تمام کو اکھٹا کر تین ضخیم جلدوں میں اکھٹا کر دیا ہے۔ اس میں صحاح ستہ کی یہ تمام احادیث آ گئی ہیں۔ اس کتاب کو بھی پڑھنے کی کسی قدر کوشش کی۔
مجھے بعض اہل تشیع دوستوں کی محبت سے آئمہ اطہار کے اقوال مبارک بھی پڑھنے کو ملے، بعض اہم کتب پڑھیں۔ حضرت امام زین العابدینؒ کی دعائوں نے ہمیشہ مسحور کیا۔ جناب امام باقر اور سیدنا امام جعفر صادق کے کلام اور دیگر آئمہ کے اقوال بھی پڑھے اور حظ اٹھایا۔
عربی ادب کی تاریخ میں خاص کر بنو عباس کے دور کے بعض اہم نثرنگاروں کی منتخب تحریروں کے تراجم پڑھے۔، جاحظ اور عبدالحمید الکاتب وغیرہ۔ ایک جگہ میں نے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور اور حسن نفس زکیہ شہید کے باہمی خطوط پڑھے۔ کمال استدلال کے نمونے دونوں اطراف سے ملے۔ کاش عربی جانتا ہوتا تو بہت کچھ مزید پڑھنے کو ملتا۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بطور قاری ہمیں انسانی کلام کو جانچنے، پرکھنے، سمجھنے میں کسی حد تک درک حاصل ہے۔
جب میں نے پہلی بار قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھا تو حقیقی معنوں میں ہوش اڑ گئے۔ اندازہ ہوا کہ الہامی کلام کیا ہوسکتا ہے۔ ایسی قوت، ہیبت اور ٹھاٹھیں مارتے سمندرکی سی روانی، جلال اور دبدبہ کسی انسان کے کلام میں آ ہی نہیں سکتا۔ یہ یقین ہوگیا کہ یہ کلام کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں۔
اسے باریک بینی سے پڑھنے کی کوشش کی اور اس وقت کے ایک اشکال کے مطابق خاص زاویے سے دیکھا تو یہ بات بالکل کلیئر ہوگئی کہ اس کے مصنف رسول اللہ ہو ہی نہیں سکتے، کیونکہ اگر (خدانخواستہ) وہ اس کے مصنف ہوتے تو بہت سی جگہوں پر وہ سب کچھ بیان نہ ہوپاتا۔
یہ حقیقت ہے کہ قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھنے والا ہر شخص فوراً جان جاتا ہے کہ رسول اللہ کا یہ کلام نہیں۔ بلکہ یہ کسی بھی انسان کا کلام نہیں۔ یہ کتاب پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ اس کائنات کا خالق ہی اس کا مصنف ہے اور وہ بار بار کسی لحاظ کے بغیر یہ بات بتا رہا ہے ، اپنے قارئین کو یہ بات سمجھا رہا ہے کہ یاد رکھو، سمجھ لو کہ میں ہی سب کچھ ہوں، میں ہی اصل طاقت ہوں، سب کچھ میرے ہی ہاتھ میں ہے اور کوئی نہیں جو میری ہمسری کر سکے ۔
اگر کوئی انسان اس کا مصنف ہوتا تو وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا تھا، وہ کہیں نہ کہیں ڈنڈی مارتا اور اپنا ایج بنانے کی کوشش کرتا۔ اگر کوئی بہت ہی چالاک شخص ہوتا پھر بھی اس سے کہیں نہ کہیں غلطی ہو ہی جانی تھی۔
میں ایک نالائق اور اوسط سے کم درجے کا قرآن شناس ہوں، کاش اس طرف زیادہ توجہ دے پاتا ، مگر پھر بھی میرے خیال میں قرآن پاک غیر جانبداری سے ، کھلے ذہن سے پڑھنے والا ہر شخص یہ سمجھ لے گا کہ
اول : یہ انسانی کلام نہیں۔ اس کا خالق کوئی بہت ہی طاقتور، بے پناہ قوت، عظمت اور غلبہ رکھنے والا ہے۔ ایسا جس کے ہاتھ میں سب زمینیں، آسمان اور بے شمار گلیکسیز ہیں۔
دوم : یہ لب ولہجہ اور انداز ابتدا سے آخر تک چلتا ہے۔ کہیں پر بھی یہ نہیں لگتا کہ انداز بدل گیا یا مصنف اور ہے۔
سوم : کوئی پرلے درجے کا جاہل یا متعصب شخص ہی یہ تصور کر سکتا ہے کہ اس کے ایک حصے کا مصنف کوئی اور ہے اور بقیہ کسی اور نے لکھا۔ نہیں ہرگز نہیں۔ آپ چاہے مسلمان ہوں یا نہ ہوں، صرف دیانت دار قاری ہوں، یہ بات آپ پر واضح ہوجائے گی کہ قرآن کسی انسان کا کلام نہیں۔
چہارم : اس کی ہر سورت میں ربط موجود ہے ۔ مجھے حیرت ہے کہ کوئی یہ دعویٰ کرے کہ طویل سورتوں میں ربط نہیں ہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ کم از کم مجھے تو یہ محسوس نہیں ہوا۔ اگر آپ کو قرآنی سورتوں کا پس منظر معلوم ہے تو پھر یہ سب کچھ واضح ہوجائے گا۔ ہاں اگر کوئی ویسے اعتراض برائے اعتراض کرنا چاہے تو پھر آپ کسی کی زبان نہیں روک سکتے۔
پنجم : مجھے یہ لگا کہ ہمارے بیشتر مسلکی باتیں اور چھوٹے موٹے مسئلے مسائل فوری چھٹ جاتے ہیں، اگر ہم قرآن پاک توجہ سے پڑھیں ۔ قرآن ان تمام مسائل کو اڑا کر رکھ دیتا ہے ۔
ششم : ایک حساس قاری کے طور پر مجھے بہت جگہوں پر ایک خاص تاثیر محسوس ہوئی۔ آپ کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، کئی مقامات پر دل میں ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے تو کہیں آدمی کے خوف سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ہفتم : میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ ترجمہ میں اصل کی قوت کا خاصا کم حصہ آتا ہے ۔ جو لوگ عربی جانتے ہیں اور قرآن فہمی کا ہنر ان کے پاس ہے، وہ یقینی طور پر زیادہ لطف اٹھا سکتے ہوں گے۔
ہشتم : جس کسی کو بھی قرآن کے حوالے سے کسی بھی قسم کا شک ہے، اسے چاہیے کہ وہ قرآن پاک پہلے ترجمے سے پڑھے اور پھر کوئی سی بھی اچھی تفسیر پڑھ لے تو اس کے مسائل ان شااللہ ختم ہوجائیں گے۔
مجھے ذاتی طور پر تو قرآن کے الفاظ کے اثرات پر بھی بہت یقین ہے۔ میرے ذاتی تجربات میں کئی ایسی چیزیں شامل ہیں۔ ہم نے اپنے شیخ کی ہدایت پر بعض آیات کو اپنے ورد کا حصہ بنایا اور اس کے حیران کن اثرات دیکھے ، اس کی تفصیل میں جانا غیر ضروری ہے۔ تاہم قرآن پاک اس مقصد کے لئے نہیں آیا بلکہ یہ کلام اللہ ہے اور یہ ہمیں زندگی، دین کی حقیقتوں سے روشناس کرانے آیا ہے۔
مجھے یہ بات عجیب لگتی ہے کہ قرآن صرف اخلاقی تقاضے بیان کرتا ہے۔ اخلاقیات تو ظاہر ہے اس کا ایک موضوع ہے، مگر اس کا بنیادی نکتہ اس خالق کائنات کا تعارف کرانا ہے، اللہ اور اس کے انبیا اور اس کی شریعت اور اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا بھرپور تعارف قرآن کے بنیادی نکات میں سے ہیں۔ اسے اخلاقیات یا تذکیہ اخلاق کی کتاب کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔
اگر قرآن پڑھیں گے تو یہ سب چیزیں واضح ہوجائیں گی۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ اپنی رائے خود قائم کریں۔ آج کل قرآن کے اچھے تراجم تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں۔ تھری سکسٹی اسلام جیسی ایک سے زیادہ ایپس موجود ہیں، جہاں کئی تفاسیر اور تراجم مل جاتے ہیں۔ نیٹ پر بھی مختلف تفاسیر ، تراجم مل جاتےہیں۔ ویسے کتابی صورت میں بھی لئے جا سکتے ہیں۔ اپنی مرضی سے اپنے من پسند مسلک کے عالم کا ترجمہ ہی پڑھ لیں، قرآن سے اپنا رشتہ تو جوڑیں، باقی کام وہ خود کر لے گا۔
(عامر خاکوانی ، دو جولائی ،2024)