آج نوبل انعام یافتہ امریکی ادیب، صحافی اور ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے کا یوم وفات ہے۔

ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو شکاگو کے ایک قصبے اوک پارک ایلیونس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک ڈاکٹر تھا جسے بیٹے کی پیدائش کی اتنی خوشی ہوئی کہ اس نے گھر کے باہر بگل بجا کر اس کا اعلان کیا۔ ہمینگوے کی ماں ایک اوپرا سے وابستہ تھی جہاں وہ میوزک کے بارے میں پڑھا کر پیسے کماتی۔ اس کا مذہب کی طرف رجحان زیادہ نہ تھا۔ ماں کا خیال تھا کہ ہیمنگوے بھی میوزک کی طرف راغب ہوگا لیکن ہیمنگوے گھر سے باہر، اپنے والد کے ساتھ شکار اور شمالی مشی گن کی جھلیوں اور جنگلوں میں کیمپ لگانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ یوں وہ فطرت سے قریب رہنے کی کوشش کرتا۔

اسکول کے دور میں فٹ بال اور باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لیتا رہا۔ کالج کے زمانے میں اخبار کنساس سٹی میں رپورٹر بھرتی ہو گیا۔ اخبار کے ساتھ چھ ماہ کی وابستگی نے اس کی زبان پر گرفت مضبوط کی. پھر اس نے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے کے لیے امریکی فوج میں شامل ہونے کی ٹھانی۔ وہ بینائی کی کمزوری کے باعث طبی معائنے میں ناکام ہوا۔ البتہ ریڈ کراس ایمبولینس کا ڈرائیور بن کر جنگ میں شریک ہو گیا۔ اٹلی کے محاذ پر ڈیوٹی کے پہلے روز ایمونیشن فیکٹری میں دھماکا ہوا۔ ہیمنگوے کو وہاں سے انسانی لاشوں کو نکالنا پڑا۔ اس تجربے کے بعد A Natural History the dead کے نام سے کتاب بھی لکھی۔ موت کو قریب سے دیکھنے کے عمل نے ہمینگوئے کو توڑ کر رکھ دیا۔ آٹھ جولائی 1918ء کو فرائض کی انجام دہی کے دوران مورٹرشل لگنے سے زخمی ہوا جس سے بطور ایمولنس ڈرائیور اس کا کیئریر انجام کو پہنچا۔ اس کو گولی بھی لگی۔

 

ریڈ کراس ہسپتال میلان میں اس کی ملاقات ایک نرس سے ہوئی اور وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا لیکن اس نے حسب وعدہ اس کے پیچھے امریکا آنے کی بجائے ایک اطالوی فوجی افسر سے تعلق استوار کر لیا۔ محبت میں ناکامی کے اس تجربے نے ہیمنگوے کو شدید متاثر کیا۔ 1925 ء میں شائع ہونے والی ہیمنگوے کی پہلی کہانی “A very Short story” اسی ناکام محبت کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔

 

جنگ کے بعد ہیمنگوے 1920ء میں اخبار ٹورانٹو سٹار کے ساتھ وابستہ ہو گیا ۔ تین ستمبر 1921ء کو ساتھی رپورٹر مورلے کلاگن سے اس کی شادی ہو گئی۔

 

1921ء میں ہیمنگوے نے اوک پارک اور شکاگو کو چھوڑ دیا اور پیرس میں آبسا۔ جہاں وہ ٹورانٹو سٹار کے لیے رپورٹنگ کرتا رہا۔ یہی امریکی جلا وطن افراد کے اس سرکل کا نقطۂ آغاز تھا جو بعد میں گم شدہ نسلیں کے نام سے جانا گیا۔ ہیمنگوے نے بعد میں اپنے ناول ”The sun also rises” اور اپنی یادداشتوں کے ذریعے گمشدہ نسلوں کو بہت زیادہ شہرت بخشی۔ اس زمانے میں اس کا ایذرا پاؤنڈ سے بھی رابطہ رہا جسے امیج ازم کا بانی کہا جاتا ہے۔ 1922 میں جیمز جوائس کی شہر آفاق کتاب “Ulysses” شائع ہوئی۔ امریکا میں ناول پر پابندی کے بعد ہیمنگوے نے ٹورانٹو میں موجود اپنے دوستوں کے ذریعے ناول کو امریکا میں پہنچانے کا انتظام کیا۔ ہیمنگوے نے اپنی یاداشتوں میں جیمز جوائس سے پیرس میں ہونے والی ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ 1923 میں پریس سے اس کی پہلی کتاب ”Three stories and ten poems” شائع ہوئی. 1923 میں وہ کینیڈا پہنچا اور پیٹر جیکسن کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا۔ کینیڈا میں ہیمنگوے کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا۔

1925 میں اس کا افسانوی مجموعہ In our time شائع ہوا ۔ اس مجموعے کی سب سے مقبول کہانی “ Big two hearted river” تھی۔ اپریل 1925ء میں The great Gatsby شائع ہونے کے بعد اس نے فرانس میں گزرے ماہ و سال کے حوالے سے طویل ناول The sun also rises لکھا۔ برطانیہ میں یہ ناول “Fiesta” کے عنوان سے چھپا۔

1927ء میں ہیمنگوے نے ہیڈلی رچرڈسن کو طلاق دے کر فیشن رپورٹر پالین فیفر سے شادی کر لی۔ اس دور میں ہیمنگوے نے کیتھولک عقائد قبول کرلیے۔ اسی برس اس کا افسانوی مجموعہ “Men with out women” چھپا۔ اس کتاب میں ہی ہیمنگوے کی مشہور ترین کہانی “The killers” بھی شامل تھی۔ 1928ء میں وہ فلوریڈا منتقل ہو گیا۔ 1928ء کا برس ہیمنگوے کے والد نے بیماری اور معاشی مشکلات سے تنگ آکر خودکشی کر لی. تدفین کے موقع پر اس نے جب کیتھولک نظریے کے مطابق اس بات کا اظہار کیا کہ خود کشی کرنے والے جنہم میں جائیں گے تو وہاں نزاعی صورت حال پیدا ہو گئی۔ اس برس ہیمنگوے کے دوسرے بیٹے کی پیدائش بڑی پچیدہ صورت حال میں ہوئی جس کی تفصیلات اس نے اپنے ناول ’’وداع جنگ‘‘ کے اختتامی صفحات میں درج کی ہیں۔ 1931ء میں ہیمنگوے ویسٹ فلوریڈا میں قیام پذیر ہو گیا۔ جہاں اس نے امریکا میں پہلی رہائش گاہ تعمیر کرائی. جس کو بعد میں میوزیم کا درجہ دے دیا گیا۔

 

1932ء میں ہیمنگوے کی بل فاٹنگ کے موضوع پر کتاب “Death in the afternoon” شائع ہوئی۔ ہمنگوے کی سپین کے بارے میں تحریروں میں اسپانوی مصنف پییو بروجا کا گہرا اثر نظرآتا ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ بروجا اس سے زیادہ نوبیل انعام کا حق دار تھا۔ 1933 میں وہ سیاحت کے لیے افریقہ کے کئی ممالک میں گیا اس سفر کے تجربات بھی کئی کتابوں کی صورت میں منظر عام پر آئے۔

ہسپانوی سول جنگ کی نارتھ امریکن نیوز پیپرز الائنس کی طرف سے رپورٹنگ کے لیے وہ 1937ء میں سپین گیا، اس جنگ نے اس کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اب وہ مذہب کے بارے میں تشکک کا شکار ہوا اور چرچ سے باغی ہو گیا۔ اس زمانے میں اس نے “The Denunciation” لکھا جس کا چرچا بہت کم ہی ہوا اس کی اشاعت بھی 1969ء میں ممکن ہوئی جب اس کو ہیمنگوے کی کہانیوں کے مجموعے میں شامل کیا گیا۔

 

1939ء میں سول جنگ کا خاتمہ ہو گیا جس کی وجہ سے ہیمنگوے کو خود اختیار کردہ وطن سے بھی ہاتھ دھونا پڑے، دوسری جانب بیوی کو طلاق دینے کے باعث وہ ویسٹ فلوریڈا میں اپنے گھر سے محروم ہو گیا۔ طلاق کے کچھ ہی ہفتوں بعد اس نے سپین میں چار سال سے اپنے ساتھ کام کرنے والی مارتھا گیلہوم سے تیسری شادی رچالی۔ یہ 1940ء کی بات ہے اسی برس اس کا اسپین کی سول جنگ کے حوالے سے ناول “For Whom the bells tolls” شائع ہوا۔ یہ ناول حقیقی واقعات کے تناظر میں ہی لکھا گیا اور ہیمنگوے کا اہم ترین ادبی کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ 1954ء میں ہیمنگوے کونوبیل انعام ملا۔ جھاڑیوں میں آگ کی وجہ سے زخمی ہونے کی وجہ سے وہ نوبیل انعام وصول کرنے سٹاک ہوم جانے سے قاصر رہا۔

 

1959ء میں جب وہ کیوبا میں مقیم تھا انقلاب آیا اور بتیسٹا کی حکومت ختم ہوئی تو بدستور کیوبا میں ہی مقیم رہا۔ دوسری جنگ عظیم اور اس کے بعد ایف بی آئی اس کی نگرانی کرتی رہی کیونکہ اس کے بارے میں شبہ کیا جاتا تھا کہ ہسپانوی سول وار کے دنوں میں اس کے مارکسی سوچ کے افراد سے تعلقات استوار ہوئے ۔ 1960ء میں اس نے کیوبا کو خیرباد کہا۔

اس کی بل فائٹنگ کے بارے میں کتاب دی ڈینجرس سمر کوئی بھی پبلشر چھاپنے پر رضامند نہ ہوا۔ یہ اس کی بیوی کے ایک دوست کے ذریعے لائف میگزین میں تصاویر کے ساتھ قسط وار چھپی.

ہیمنگوے کے ناولوں میں سے سب سے زیادہ شہرت Old man and the sea کو ملی.

1960ء میں وہ بلڈپریشر اور جگر کی بیماری کا شکار تھا اوراس کے ساتھ وہ الیکٹرو کنکولسر تھراپی بھی کروا رہا تھا۔ کیونکہ شدید ذہنی دباؤ اور مالخولیا کا شکار تھا۔ اس طریقہ علاج سے یاد داشت جاتی رہتی ہے۔ اس کا وزن بھی بہت گھٹ گیا

2 جولائی 1961ء کو جب اس کی باسٹھویں سالگرہ میں چند ہی ہفتے رہ گئے تھے اس نے سر میں گولی مار خود کو ہلاک کر لیا۔ ہیمنگوے کے خاندان میں خودکشی کا رجحان موجود تھا اس کے باپ نے بھی خودکشی کی تھی اور دو بہنوں نے بھی اسی راہ کا انتخاب کیا تھا.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button