سید مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کی ملاقات، کوسٹل ہائی وے کی تعمیر اور20 دیگر زیر التوا منصوبوں کی پلاننگ کمیشن سے منظوری کے حوالےسے بات چیت

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال سے ملاقات میں کوسٹل ہائی وے کی تعمیر اور20 دیگر زیر التوا منصوبوں کی پلاننگ کمیشن سے منظوری کے حوالےسے بات چیت کی۔ملاقات میں کوسٹل ہائی وے کو اکنامک کوریڈور بنانے پر اتفاق کیاگیا کیونکہ یہ کیٹی بندر، کراچی اور ملک کے تمام دیگر شاہراہوں سے منسلک ہے۔اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی و توانائی سید ناصر شاہ نے شرکت کی۔وفاقی وزیر احسن اقبال نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ انہوں نے وزیر پی اینڈ ڈی ناصر شاہ سے مل کر آج (منگل کو) کوسٹل ہائی وے کے دوسرے مرحلے میں زمین کو ہموار کرنے کا شروع کر دیا ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ مکران کوسٹل ہائی وے کو تقریباً 25 سال ہوچکے ہیں مگر اسے اکنامک کوریڈور کا درجہ نہ مل سکا ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سڑک سیکٹر کے منصوبوں کو نہ صرف پبلک ٹرانسپورٹ تک محدود کیاجائے بلکہ انہیں اقتصادی زونز میں بھی شامل کیاجائے۔ اس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ اور وفاقی حکومت کی جانب سے تعمیر کی جانے والی کوسٹل ہائی وے میں معاشی سرگرمیوں کے قابل ذکر امکانات موجود ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ کوسٹل ہائی وے کراچی اور ملک کے دیگر حصوں تک سامان کی نقل و حمل کے لیے واضح رسائی فراہم کرے گی کیونکہ یہ قومی شاہراہ اور موٹر وے سے منسلک ہے۔وزیر پی اینڈ ڈی ناصر شاہ نے وزیراعلیٰ سندھ کو زیر تعمیر کوسٹل ہائی وے پر بریفنگ دی۔کوسٹل ہائی وے: سندھ کوسٹل ہائی وے کی کل لمبائی 279 کلومیٹر ہے جوکہ گھارو، ضلع ٹھٹھہ میں N5 سے شروع ہوتی ہے اور علی بندر ضلع بدین تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ منصوبہ سندھ حکومت نے 2007 میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (ADP) کے تحت شروع کیا تھا۔ مالی مجبوریوں کی وجہ سے یہ منصوبہ مرحلہ وار مکمل کیا جائے گا۔فیز-I: یہ مرحلہ 37 کلومیٹر پر محیط ہے، گھارو کے قریب نیشنل ہائی وے (N5) سے شروع ہوتا ہے اور یہ منصوبے کے اس حصے کو 24-2023 میں تعمیر کیا گیا تھا۔

فیز I کی توسیع: 11 کلومیٹر اضافی سڑک زیر تعمیر ہےجسے 2023 کےاختتام سے 4ماہ قبل شروع کیاگیا اوراسے اگلے پانچ سالوں میں مکمل کیاجائےگا۔

فیز II: اس مرحلے میں مزید 36 کلومیٹر شامل کیاگیا ہے، جو سڑک کو 11 کلومیٹر سے بڑھا کر 47 کلومیٹر تک پھیلاتا ہے، گڈاجو – جھاپولو ڈھنڈ سے شروع ہو کر N110 پر ختم ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ فیڈرل پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (PSDP) کے تحت شامل کیاگیا ہے اور یہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی سی ایس آر 2022 کا حصہ ہے۔ اسکیم فی الحال ہائپر انفلیشن اور NHA CSR 2024 کے اجراء کی وجہ سے نظرثانی میں ہے۔پی سی ون کی منظوری کے بعد کام باقاعدگی سے شروع کیاجائےگا۔

فیز III: 195 کلومیٹر، کیٹی بندر سے علی بندر براستہ شاہ بندر اور زیرو پوائنٹ بدین، پالیسی فیصلوں اور فنڈز کی دستیابی پر منحصر ہے جسے بعد میں شروع کیا جائے گا۔وزیر اعلیٰ سندھ نے احسن اقبال کے ساتھ مختلف صوبائی منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا جوکہ گزشتہ دو سالوں سے نظرثانی کی وجہ سےزیر التوا کا شکار ہیں۔ ان منصوبوں میں حیدرآباد پیکج یعنی ایسٹرن کی تعمیر اور سدرن سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کی توسیع شامل ہے۔ حیدرآباد شہر کو صاف پانی فراہم کرنے کے لیے فلٹر پلانٹ اور واٹر سپلائی نیٹ ورکس کی توسیع بھی اس کا حصہ ہے۔ وفاقی وزیر نے وزیراعلیٰ سندھ کو یقین دلایا کہ ان کی منظوری جلد جاری کر دی جائے گی۔سائٹ انڈسٹریل اسٹیٹ، کراچی میں سڑکوں کی بحالی اور تعمیر کا کام جو کہ 13 اگست 2024 سے منظوری کے مراحل میں ہے۔ اس پر وفاقی وزیر احسن اقبال نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ وہ سائٹ انڈسٹریل ایریا کا دورہ کریں گے اور پھر ان کو پلاننگ کمیشن کلیئر کرائیں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی اربن انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پیکیج اس وقت PC-I کی منظوری کے مراحل میں ہے۔ لہٰذا، دوسری سہ ماہی کی تجویز اس وقت قابل عمل نہیں ہے۔ پلاننگ کمیشن نے تفصیلی تخمینہ نہ ملنے پر PC-I واپس کر کیا۔حیدرآباد اربن انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ پیکج (اصلاح اور بحالی) بھی PC-I کی منظوری کے لیے زیر جائزہ ہے اس لیے دوسری سہ ماہی پروپوزل تجویز نہیں کی گئی ۔ کراچی کی طرح، پلاننگ کمیشن نے تفصیلی تخمینہ کے لیے PC-I واپس کر دیا۔

2022 میں بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والے سندھ میں موجودہ اسکولوں کی تعمیر اور تعمیر نو کے لیے وزیر اعظم کے پروگرام (1800 یونٹس) کو ہر لحاظ سے کلیئر کر دیا گیا ہے اور پہلی سہ ماہی فنڈنگ جاری کر دی گئی ہے۔ تمام اسکولوں کے لیے ٹینڈرز فی الحال جانچ کے مرحلے میں ہیں اور دوسری سہ ماہی کے لیے 2000 ملین روپے تجویز کیے گئے جوکہ کافی نہیں ہوں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک بار کام شروع ہوجائے تو مزید فنڈز جاری کیے جائیں گے، وزیراعلیٰ سندھ اور وفاقی وزیر نے یکساں نوعیت منصوبوں اور ان کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا اور انہیں حل کرنے کا عزم کیا تاکہ کام شروع کیا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button