نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا آج میرا جی کا یوم پیدائش ہے

میرا جی کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا۔۲۵ مئی ۱۹۱۲ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔(ایک روایت میں گجرات بھی مذکور ہے)ان کی والدہ زینب بیگم عرف سردار بیگم ، ان کے والد منشی محمد مہتاب الدین کی دوسری بیوی تھیں. پہلی کے انتقال کے بعد انہوں نے ان سے شادی کی، وہ عمر میں منشی صاحب سے بہت چھوٹی تھیں۔ عمروں کے اس تفاوت نے بھی میرا جی کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔ان کے والد کو ریلوے کی ملازمت کی وجہ سے مختلف شہروں میں قیام کرنا پڑا۔گجرات کاٹھیا واڑ سے لے کر بوستان، بلوچستان تک انہوں نے سکھر، جیکب آباد، ڈھابے جی، جیسے مقامات گھوم لیے۔بنگال کے حسن کے جادو نے انہیں لاہور میں اپنا اسیر کیا۔ ۱۹۳۲ء میں انھوں نے ایک بنگالی لڑکی میرا سین کو دیکھا اور پھر اسی کے ہو رہے۔یہ سراسر داخلی نوعیت کا یکطرفہ عشق تھا۔ میرا سین کو اس کی کلاس فیلوز میرا جی کہتی تھیں، چنانچہ ثناء اللہ ڈار نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا اور رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی کی زندہ مثال بن گئے۔اس عشق میں میٹرک پاس نہ کر سکے۔ہومیو پیتھک ڈاکٹری سیکھ لی لیکن نہ اس کی بنیاد پر ڈاکٹر کہلوانا مناسب سمجھا اور نہ ہی اس مہارت سے کوئی تجارتی فائدہ اٹھایا۔ بال بڑھا لیے، ملنگوں جیسا حلیہ اختیار کر لیا۔پھر اس میں تدریجاً ترقی کرتے گئے، لوہے کے تین گولے، گلے کی مالا، لمبا اور بھاری بھر کم اوور کوٹ، بغیر استر کے پتلون کی جیبیں اور ہاتھ عام طور پر جیب کے اندر، بے تحاشہ شراب نوشی، سماجی ذمہ داریوں سے یکسر بے گانگی۔۔۔ یہ سارے نشان میرا جی کی ظاہری شخصیت کی پہچان بنتے گئے

بقول محمد حسن عسکری’’جب انہوں نے دیکھا کہ دوست انہیں افسانہ بنا دینا چاہتے ہیں تو بے تامل افسانہ بن گئے، اس کے بعد ان کی ساری عمر اس افسانے کو نبھاتے گزری‘‘۔

میرا سین سے میرا جی کی پہلی ملاقات یا پہلی بار دیکھنا ۲۰ مارچ ۱۹۳۲ء کا واقعہ ہے۔وہ اپنی تعلیم مکمل کرنا تو کیا میٹرک بھی نہ کر سکے۔اس کے باوجود انگریزی زبان اور ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔جدید نظم کا تجربہ انگریزی ادب سے ہی آیا تھا میرا جی نے اسے ہندوستان کی مقامیت میں گوندھ کر اردو کی مستقل اور جاندار صنف بنا دیا۔ان کے کئے ہوئے سارے تراجم بھی انگریزی سے ہوئے ہیں۔ پھر ان کی تنقیدی بصیرت میں مغربی علوم سے مثبت استفادہ کے ساتھ اسے اپنے ادب کے تناظر میں دیکھنے کا رویہ بھی موجود ہے۔یوں میٹرک فیل میرا جی، جو ظاہری زندگی میں ایک ملنگ سا شاعر ہے ادب کے معاملہ میں بہت ذمہ دار دکھائی دیتا ہے۔۲۹ اپریل ۱۹۳۶ء کو بزم داستاں گویاں کے نام سے لاہور میں ایک ادبی تنظیم قائم ہوئی جو بعد میں حلقہ ارباب ذوق بن گئی۔۲۵ اگست ۱۹۴۰ء کو میرا جی پہلی مرتبہ حلقہ کے اجلاس میں شریک ہوئے، ان کی آمد نے حلقہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔

میرا جی کے والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم سے مولانا صلاح الدین احمد کے ساتھ مل کر ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کھولی۔ لیکن ایجنسی گھاٹے کا شکار ہوئی۔نوبت مقدمہ بازی تک پہنچی۔ایسی فضا میں میرا جی نے مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی رسالہ ’’ادبی دنیا‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔والد نے برا منایا تو انہیں سمجھا بجھا دیا۔ ’’ادبی دنیا‘‘ میں ان کی شمولیت سے جدید ادبی رویوں کو فروغ ملنے لگا۔ ۱۹۴۲ء میں ’’ادبی دنیا‘‘ کو چھوڑ کر دہلی گئے۔جون ۱۹۴۷ء کو بمبئی گئے لیکن اپنے مخصوص مزاج کے باعث دنیا داری میں کہیں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔لاہور کے زمانہ سے لے کر دہلی کے دور تک طوائفوں کے پاس بھی جاتے رہے اور لاہور کی ایک طوائف سے آتشک کا موذی تحفہ لے کر آئے۔دہلی میں ریڈیو کی ملازمت کے دوران دو اناؤنسرز کو کچھ پسند کرنے لگے لیکن ایک اناؤنسر کی پھٹکار کے بعد میرا سین کی مستی میں واپس چلے گئے۔بمبئی کی فلمی دنیا میں پاؤں جمانے کی کوشش کی۔مگر کامیاب نہ ہوئے۔اس دوران ماں سے ملنے کی خواہش لاہور جانے پر اکساتی رہی، لاہور تو نہ جا سکے البتہ ’’سمندر کا بلاوا‘‘ جیسی خوبصورت نظم تخلیق ہو گئی۔ایک بار والدہ سے ملنے کے لیے معقول رقم جمع کر لی تھی کہ ایک تانگے والے نے اپنا مسئلہ بتایا کہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں ہو رہی۔میرا جی نے ساری رقم اٹھا کر تانگے والے کو دے دی اور والدہ سے ملنے کا پروگرام موخر کر دیا جو تا دمِ مرگ موخر ہی رہا۔ایک اور موقعہ پر ایک ترقی پسند شاعر کی درد بھری داستان سن کر ساری جمع پونجی اس کے حوالے کر دی۔بمبئی میں سخت غربت، بھیک مانگنے جیسی حالت، دن میں چالیس سے پچاس تک پان کھانے کی عادت، کثرت شراب نوشی، استمنا بالید اور آتشک کے نتیجہ میں ۳ نومبر ۱۹۴۹ء کو میرا جی بمبئی کے ایک ہسپتال میں ساڑھے ۳۷ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔الطاف گوہر کی تحریر کے مطابق ’’مرنے سے چند دن پہلے جب ایک پادری نے ان سے پوچھا۔۔’آپ یہاں کب سے ہیں ؟ ‘

تو میرا جی نے بڑی متانت سے کہا ۔۔’ازل سے‘

 

اخترالایمان نے بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ چونکہ تقسیم بر صغیر کے معاً بعد کا زمانہ تھا۔ اس لیے میرا جی جیسا شاعر جو زندگی بھر قدیم ہندوستان کی رُوح کا پرستار رہا، اس کا مسلمان اور پاکستانی ہونا تعصب کا موجب بن گیا۔اختر الایمان نے خود اخبارات کے دفاتر میں فون کر کے خبر دی۔دوسرے دن خود جا کر میرا جی کی وفات کی خبر دی لیکن کسی اخبار نے ان کی وفات کی خبر چھاپنا گوارا نہیں کیا۔میرا جی کو بمبئی کے میرن لائن قبرستان میں دفن کیا گیا۔جنازے میں صرف پانچ افراد شامل ہوئے۔اخترالایمان، نجم نقوی، مدھو سودن، مہندر ناتھ

 

میرا جی اپنی زندگی کے مختصر دور میں دہلی، لاہور، بمبئی، پونہ تک جن مختلف ادیبوں کے کسی نہ کسی رنگ میں قریب رہے، ان میں سے چند نام یہ ہیں۔ مولانا صلاح الدین احمد، شاہد احمد دہلوی، منٹو، یوسف ظفر، قیوم نظر، الطاف گوہر، مختار صدیقی، ن۔م۔راشد، اختر الایمان، راجہ مہدی علی خان، کرشن چندر، احمد بشیر، محمود نظامی و دیگر۔

انہوں نے حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے اور سماجی موضوعات پر بھی بعض فکر انگیز مضامین تحریر کیے تھے اور علم فلکیات میں بھی انہیں دلچسپی تھی۔

’’میرا جی خود کو تکلیف دے کر ایک طرح کی خوشی محسوس کرتے تھے۔ان کا کچھ تعلق ملامتی فرقے سے بھی بنتا ہے۔ملامتی خود کو برا بھلا کہہ کر ایک قسم کی روحانی بالیدگی حاصل کرتے ہیں۔ میرا جی کے یہاں کچھ ملامتی اور کچھ بھگتی تحریک کے اثرات نے ایک ملی جلی کیفیت پیدا کر دی تھی لیکن مکمل طور پر انہیں کسی خانے یا خاص اثر کے تحت نہیں دیکھا جا سکتا۔بہت سے اثرات سے مل کر جو کچھ بنا وہ خالصتاً ’’میرا جیت‘‘ تھی‘‘

 

’’یہ ان کا بہت سوچا سمجھا فیصلہ تھا کہ وہ ثناء اللہ ڈار کی حیثیت سے نہیں بلکہ میرا جی کی حیثیت سے زندہ رہیں گے۔انہوں نے اپنی شخصیت کی یہMyth ممکنہ رنج و غم سہہ کر بنائی تھی اور یہ محض ڈرامہ نہیں تھا کیونکہ ساری زندگی دکھوں کی نگری میں مارا مارا پھرنے والا مسافر اتنا طویل ڈرامہ نہیں کر سکتا۔یہ تو ایک شخصیت کیMyth کی تعمیر تھی جس کے لیے انہوں نے ثناء اللہ ڈار ہی کی قربانی نہیں دی بلکہ تمام ظاہری آرام و آسائش اور معمولات سے بھی کنارہ کشی کی۔زندگی کا جہنم بھوگ کر وہ میرا جی کو زندہ کر گئے۔یہی ان کا مقصد بھی تھا اور یہی ان کا ثمر بھی ہے.

’’میرا جی کی شاعری میں تنوع ہے ہی ایسا کہ اس کی کئی جہتیں وا ہوتی چلی جاتی ہیں، داخلیت پسندی اور بیمار ذہنیت کے الزامات میرا جی پر ان لوگوں نے لگائے جو ان کی نظموں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔

میرا جی کے گیتوں میں جو کرب اور دکھ ہے وہ ان کی ذات کے ایوان سے چھن چھن کر وہاں آ رہا ہے اور خاص طور پر سنجوگ کی ایک کیفیت، تمناؤں کی مستقل کسک، اور آشاؤں کی ایک بے انت دنیا، یہ سب ان کی ذات کے وہ گوشے ہیں جو ان کے مزاج کو گیت کے قریب لاتے ہیں اور گیت بطور صنف ان کے اس مزاج سے ایسا تال میل کھاتا ہے کہ میرا جی کے گیت نہ صرف یہ کہ ایک انفرادی حیثیت حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کی ایک پہچان بھی بنتے ہیں ‘‘

’’میرا جی کی غزلیں اسلوب اور اظہار کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی لفظیات بھی وہی ہیں جو میرا جی کی نظموں اور گیتوں کی ہیں۔ گویا انہوں نے اپنے گیتوں کے مزاج کو غزل کے مزاج سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے، اس لیے یہ غزلیں نظم کا رنگ بھی لیے ہوئے ہیں.

 

میرا جی کی تنقیدی بصیرت ان کی تنقیدی آراء سے عیاں ہے۔ایم ڈی تاثیر کی ایک نظم میں تخلص کے استعمال پر میرا جی نے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا: ’’تخلص غزل کی پیداوار ہے اور غزل تک ہی اسے محدود رہنا چاہیے کیونکہ غزل میں اس کی کھپت بہت خوبی سے ہو جاتی ہے۔نظم میں اس کے استعمال سے تسلسل میں فرق پڑتا ہے۔خصوصاً اس نظم میں جس کی خوبی اس کے تصورات کا بہاؤ ہے۔ایسی نظم میں موضوع سے قرب ہر لمحہ ضروری تھا اور تخلص موضوع کی بجائے شاعر کے قریب لے جاتا ہے۔‘‘

’’میرا جی کا رجحان نفسیاتی تنقید کی طرف تھا لیکن انہوں نے نظموں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے ایک فریم کے طور پر استعمال نہیں کیا۔انہوں نے مختلف شاعروں کی نظموں کا تجزیہ کیا ہے، ان میں ترقی پسند بھی شامل ہیں، جن کے نظریات سے ان کا بنیادی اختلاف تھا، لیکن انہوں نے ان کی نظموں کو ان کے نظریے کی روشنی میں رکھ کر ان کا فنی تجزیہ کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا جی فن پارے کو کسی مخصوص نظریے سے دیکھنے کی بجائے اس کی فنی حیثیت کو سامنے رکھتے تھے‘‘

’’میرا جی کی تنقید میں ایک تحقیقی ذائقہ بھی شامل ہے۔یہ در اصل ان کے وسیع مطالعہ کی عطا ہے‘‘

’’نظم کے بنیادی خیال کی تلاش میرا جی کی تنقید کا مرکزی نقطہ ہے اور اس مرکزی نقطہ کو وہ اکثر نفسیاتی توجیہات سے واضح کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ‘‘

 

سین کی واپسی کی خواہش کی بجائے خود میرا سین بن کر اسے ہمیشہ کے لیے اپنے اندرسمو لیا۔رانجھا رانجھا کردی نی میں آپ ای رانجھا ہوئی‘‘

’’جنس کا حوالہ میرا جی کے ساتھ اس طرح چپک گیا ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میرا جی کا سارا مسئلہ جنس ہی ہے اور انہوں نے دوسرے مسائل کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔در اصل میرا جی کے شخصی افسانے نے ان کے گرد ایک ایسا ہالہ بنا دیا ہے کہ اس سے باہر نکلنے کی دوسروں نے کوئی کوشش ہی نہیں کی اور عام لوگ میرا جی کو ان افسانوں اور ان کی شاعری پر ہونے والے سطحی اعتراضات ہی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ میرا جی نے اپنے مضامین میں جس سیاسی اور سماجی شعور کا اظہار کیا ہے اور ان کے مضامین جس طرح بر صغیر کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورت حال کا احاطہ کرتے ہیں وہ شعور ان کے بہت کم ہم عصروں کو حاصل تھا۔عام طور پر میرا جی کو اینٹی ترقی پسند سمجھا جاتا ہے لیکن میرا جی نے اپنے مضامین میں بر صغیر کی اقتصادی صورتحال کے جو تجزیے کیے ہیں وہ ان کے عہد کا بڑے سے بڑا ترقی پسند بھی نہیں کرتا‘‘

 

میرا جی بیسویں صدی کے اردو ادب میں ایک اہم اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری خصوصاً نظموں کے ذریعے جدید اردو کی بنیاد رکھی اور اپنی تنقید کے توسط سے اردو شاعری کی تفہیم کی اور نئے تنقیدی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ان کا کام ان کی عظمت کی سند ہے کہ میرا جی اپنے عہد ہی میں نہیں، آج بھی ایک اہم ادبی شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں ‘‘

 

(ڈاکٹر رشید امجد کے پی ایچ ڈی کے مقالے "میرا جی، شخصیت اور فن” سے اقتباسات)

 

منتخب کلام :

 

من مورکھ مٹی کا مادھو، ہر سانچے میں ڈھل جاتا ہے

اس کو تم کیا دھوکا دو گے بات کی بات بہل جاتا ہے

 

جی کی جی میں رہ جاتی ہے آیا وقت ہی ٹل جاتا ہے

یہ تو بتاؤ کس نے کہا تھا، کانٹا دل سے نکل جاتا ہے

 

جھوٹ موٹ بھی ہونٹ کھلے تو دل نے جانا، امرت پایا

ایک اک میٹھے بول پہ مورکھ دو دو ہاتھ اچھل جاتا ہے

 

جیسے بالک پا کے کھلونا، توڑ دے اس کو اور پھر روئے

ویسے آشا کے مٹنے پر میرا دل بھی مچل جاتا ہے

 

جیون ریت کی چھان پھٹک میں سوچ سوچ دن رین گنوائے

بیرن وقت کی ہیرا پھیری پل آتا ہے پل جاتا ہے

 

میرا جی روشن کر لوجی، بن بستی جوگی کا پھیرا

دیکھ کر ہر انجانی صورت پہلا رنگ بدل جاتا ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

لذّت شام، شبِ ہجر خدا داد نہیں

اِس سے بڑھ کر ہمیں رازِ غمِ دل یاد نہیں

 

کیفیت خانہ بدوشانِ چمن کی مت پُوچھ

یہ وہ گُلہائے شگفتہ ہیں جو برباد نہیں

 

یک ہمہ حُسنِ طلب، یک ہمہ جانِ نغمہ

تم جو بیداد نہیں ہم بھی تو فریاد نہیں

 

زندگی سیلِ تن آساں کی فراوانی ہے

زندگی نقش گرِ خاطرِ ناشاد نہیں

 

اُن کی ہر اِک نگہ آموختۂ عکسِ نشاط

ہر قدم گرچہ مجھے سیلیِ استاد نہیں

 

دیکھتے دیکھتے ہر چیز مٹی جاتی ہے

جنّتِ حُسنِ نفَس و جنّتِ شدّاد نہیں

 

ہر جگہ حُسنِ فزوں اپنی مہک دیتا ہے

باعثِ زینتِ گُل تو قدِ شمشاد نہیں

 

خانہ سازانِ عناصر سے یہ کوئی کہہ دے

پُرسکوں آبِ رواں، نوحہ کناں باد نہیں

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا، کیا اب تم سے بیان کریں

غم بھی راس نہ آیا دل کو، اور ہی کچھ سامان کریں

 

کرنے اور کہنے کی باتیں، کِس نے کہیں اور کِس نے کیں

کرتے کہتے دیکھیں کسی کو، ہم بھی کوئی پیمان کریں

 

بھلی بُری جیسی بھی گزری، اُن کے سہارے گزری ہے

حضرتِ دل جب ہاتھ بڑھائیں، ہر مشکل آسان کریں

 

ایک ٹھکانا آگے آگے، پیچھے پیچھے مسافر ہے

چلتے چلتے سانس جو ٹوٹے، منزل کا اعلان کریں

 

میر ملے تھے میرا جی سے، باتوں سے ہم جان گئے

فیض کا چشمہ جاری ہے، حفظ ان کا بھی دیوان کریں

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا، دل میں دُھن بھی سمائی ہے

میرا جی دانا تو نہیں ہے، عاشق ہے، سودائی ہے

 

صبح سویرے کون سی صُورت پُھلواری میں آئی ہے

ڈالی ڈالی جُھوم اُٹھی ہے، کلِی کلِی لہرائی ہے

 

جانی پہچانی صُورت کو اب تو آنکھیں ترسیں گی

نئے شہرمیں جِیون دیوی نیا رُوپ بھر لائی ہے

 

ایک کِھلونا ٹُوٹ گیا تو اورکئی مِل جائیں گے

بالک! یہ انہونی تجھ کو کس بیری نے سُجھائی ہے

 

دھیان کی دُھن ہے امرگیت، پہچان لِیا تو بولے گا

جس نے راہ سے بھٹکایا تھا وہی راہ پر لائی ہے

 

بیٹھے ہیں پھلواری میں، دیکھیں کب کلِیاں کِھلتی ہیں

بھنور بھاؤ تو نہیں ہے، کس نے اِتنی راہ دِکھائی ہے؟

 

جب دل گھبرا جاتا ہے، تو آپ ہی آپ بہلتا ہے

پریم کی رِیت اِسے جانو پر ہونی کی چترائی ہے

 

امیدیں، ارمان سبھی جُل دے جائیں گے، جانتے تھے

جان جان کے دھوکے کھائے، جان کے بات بڑھائی ہے

 

اپنا رنگ بھلا لگتا ہے، کلِیاں چٹکیں، پھُول بنیں

پُھول پُھول یہ جُھوم کے بولا، کلیو! تم کوبدھائی ہے

 

آبشار کے رنگ تو دیکھے لگن منڈل کیوں یاد نہیں

کس کا بیاہ رچا ہے؟ دیکھو! ڈھولک ہے شہنائی ہے

 

ایسے ڈولے من کا بجرا جیسے نین بیچ ہو کجرا

دل کے اندردُھوم مچی ہے جگ میں اُداسی چھائی ہے

 

لہروں سے لہریں ملتی ہیں ساگر اُمڈا آتا ہے

منجدھارمیں بسنے والے نے ساحل پر جوت لگائی ہے

 

آخری بات سُنائے کوئی، آخری بات سُنیں کیوں ہم نے

اِس دُنیا میں سب سے پہلے آخری بات سُنائی ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

غیرآباد جزیروں میں چلا جاؤں گا

عمْر بھرلَوٹ کے میں پھرنہ کبھی آؤں گا

 

شہرمیں سانس بھی لینا ہے مجھے اب دو بھر

شہر کی تلْخ فضاؤں سے نِکل جاؤں گا

 

دُور جا بیٹھوں گا ہنگامۂ شوروشر سے

قلْبِ محزوں کو میں تنہائی سے بہلاؤں گا

 

قعرِ دریا کی حدیں راہ میں حائل ہوں گی

حسرتیں ساکنِ ظلمت کدۂ دل ہوں گی

 

رسمِ دُنیا ہے محبّت میں ہو تشنہ کامی

عشق کے خواب غم ودرد کے ہیں پیغامی

 

اِس جہاں سے مجھے رُسوائی ملی، ناکامی

اِس جہاں میں، میں رہا خستہ و خوار وعامی

 

اِس جہاں میں نہ کبھی روح کی بہجت دیکھی

اِس جہاں میں نہ کبھی راہ مسرّت دیکھی

 

اِس جہاں میں نہ کبھی لَوٹ کے میں آؤں گا

غیرآباد جزیروں میں چلا جاؤں گا

 

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

کہیں یہ میری ہستی کو

 

پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت

مِری ہستی ہے اک ذرہ

کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ

ستاروں کا علمبردار کر دے گی، مسرت میری ہستی کو

 

اگر پھر سے اسی پہلی بلندی سے ملا دے گی

تو میں ڈرتا ہوں۔۔۔ڈرتا ہوں

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت

 

میں ڈرتا ہوں مسرت سے کہیں یہ میری ہستی کو

بھلا کر تلخیاں ساری

بنا دے دیوتاؤں سا

تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا

زمانہ اپنی ہستی کا

 

میرا جی کی تصانیف:

 

شاعری:

میرا جی کے گیت مکتبہ اردو لاہور ۱۹۴۳ء

میرا جی کی نظمیں ساقی بک ڈپو دہلی ۱۹۴۴ء

 

گیت ہی گیت ساقی بک ڈپو دہلی ۱۹۴۴ء

پابند نظمیں کتاب نما، راولپنڈی ۱۹۶۸ء

تین رنگ کتاب نما، راولپنڈی ۱۹۶۸ء

 

سہ آتشہ بمبئی ۱۹۹۲ء

کلیاتِ میرا جی۔مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی اردو مرکز لندن ۱۹۸۸ء

 

کلیاتِ میرا جی۔مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی، نیا ایڈیشن۔لاہور ۱۹۹۴ء

 

تنقید:

 

مشرق و مغرب کے نغمے:(تنقید و تراجمِ شاعری) اکادمی پنجاب (ٹرسٹ) لاہور ۱۹۵۸ء

اس نظم میں : ساقی بک ڈپو۔دہلی

تراجم:

 

نگار خانہ : (سنسکرت شاعر دامودر گپت کی کتاب ’’نٹنی مَتَم‘‘ کا نثری ترجمہ)۔

خیمے کے آس پاس:(عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ)۔مکتبۂ جدید لاہور۔۱۹۶۴ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button