چیف جسٹس گلگت بلتستان چیف کورٹ جسٹس علی بیگ سے ایڈیشنل چیف سیکریٹری گلگت بلتستان، کیپٹن (ر) مشتاق احمدنے چیف جسٹس چیمبر میں ملاقات کی ملاقات میں ڈائریکٹر جنرل ڈویلپمنٹ چیف کورٹ غلام عباس چوپا،ایڈیشنل رجسٹرار راحت علی چنگیزی بھی ہمراہ موجود تھے ۔ ملاقات میں عدلیہ کے جاری ترقیاتی منصوبوں، عدالتی انفراسٹرکچر کی بہتری اور جدید ٹیکنالوجی کے موثر استعمال سے متعلق پیش رفت پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔اس موقع پر چیف جسٹس علی بیگ نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کیپٹن ریٹائر مشتاق احمد کی بطور اعلیٰ انتظامی افسر، خصوصاً گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل میں اُن کی غیر جانب دارانہ، اور قابلِ ستائش خدمات کو سراہا۔انہوں نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کی عدلیہ آئینی خودمختاری، اصولی فیصلوں اور غیر مرعوب عدالتی طرزِ عمل پر کامل یقین رکھتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ خطے کے پُرامن ماحول، سماجی ہم آہنگی اور عوامی اعتماد کے فروغ میں عدلیہ کا کردار بنیادی، مؤثر اور فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔مزید کہا کہ گلگت بلتستان چیف کورٹ عوام کو اُن کی دہلیز پر سستا، فوری اور معیاری انصاف فراہم کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے اور اس مقصد کے لیے عدلیہ نے اپنے وسائل کا بہترین، شفاف اور منظم استعمال یقینی بنایا ہے۔انہوں نے بتایا کہ چیف کورٹ اور ماتحت عدلیہ کو جدید ٹیکنالوجی سے مؤثر طور پر آراستہ کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں دیامر اور سکردو سمیت دور دراز اضلاع سے ہنگامی نوعیت کے مقدمات کی ویڈیو لنک کے ذریعے شفاف سماعت ممکن ہو چکی ہے۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ چیف کورٹ کمپلیکس کا تقریباً ایک ارب روپے لاگت کا منصوبہ اراضی کی عدم فراہمی کے باعث 2016ء سے التوا کا شکار ہے۔ تاہم 2025ء میں اس منصوبے کی کنسلٹنسی کا ٹھیکہ نَسپاک کمپنی نے حاصل کیا ہے، جس کی فزیبلٹی رپورٹ کے مطابق منصوبے کی موجودہ لاگت تقریباً چار ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بطور چیف جسٹس، میں چیف کورٹ اور ماتحت عدالتوں کے تمام ترقیاتی منصوبوں کی براہِ راست خود نگرانی کر رہا ہوں تاکہ یہ منصوبے بروقت، شفاف، معیاری اور قومی خزانے پر کم سے کم بوجھ کے ساتھ مکمل ہوں۔گزشتہ سال ماتحت عدلیہ کے دو منصوبوں میں ایگزیکٹو انجینئرز کی جانب سے تجویز کردہ ریوائز پی سی ونز میں غیر ضروری کاموں کی نشاندھی اور اخراج سے قومی خزانے کو آٹھ کروڑ روپے کی قابلِ قدر مالی بچت کی گئی، جو عدلیہ کے مؤثر، منضبط اور شفاف مالی نظم کا واضح ثبوت ہے۔اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل ڈویلپمنٹ چیف کورٹ غلام عباس چوپا نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ منصوبوں کی بروقت تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ منصوبہ سازی سے پہلے کنسلٹنسی کا عدم انعقاد اور فنڈز کی بروقت فراہمی نہ ہونا ہے۔ انہوں نے عدلیہ کے زیر نگرانی جاری منصوبوں کی موجودہ صورتحال اور آئندہ مراحل پر بھی روشنی ڈالی۔ایڈیشنل چیف سیکریٹری کیپٹن (ر) مشتاق احمد نے چیف جسٹس علی بیگ کی قیادت میں چیف کورٹ اور ماتحت عدلیہ کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہاعدلیہ کے ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت دیگر محکموں کے مقابلے میں بہتر اور مؤثر ہے۔ حکومت کے لیے عدلیہ کے منصوبوں کی بروقت تکمیل اولین ترجیح ہے، کیونکہ بروقت انصاف معاشرے میں امن، بھائی چارگی اور استحکام کا ضامن ہے، اور امن ہی حقیقی ترقی کا بنیادی ستون ہے۔انہوں نے امن و امان، قانون کی بالادستی اور فوری انصاف کی فراہمی کو معاشرتی استحکام کی بنیاد قرار دیتے ہوئے عدلیہ کو ہر ممکن سرکاری تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔بعد ازاں چیف جسٹس اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے چیف کورٹ کی آئی ٹی سیکشن، جوڈیشل اکیڈمی اور ججز ہاسٹل کے زیر تعمیر منصوبوں کا تفصیلی معائنہ کیا۔ کیپٹن (ر) مشتاق احمد نے جاری کام کو تسلی بخش اور معیارات کے مطابق قرار دیتے ہوئے عدلیہ کے منصوبوں کی جلد تکمیل کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ملاقات کے اختتام پر چیف جسٹس جسٹس علی بیگ نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کیپٹن (ر) محمد مشتاق کو یادگاری سوینوئر پیش کیا۔






