جون ایلیا کو رخصت ہوئے 22 برس بیت گئے۔

وہ 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے اور 8 نومبر 2002ء کو کراچی میں وفات پائی۔

انہوں نے اپنا پہلا شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں کہا تھا۔ اپنی کتاب’’شاید‘‘ کے پیش لفظ میں لکھا:‏

” میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا:‏

چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں

دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی”

 

جون ایلیا معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے ‏بھائی، اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے شوہر تھے۔

ان کا نام سید جون اصغر تھا۔14؍دسمبر 1931ء کوامروہہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد شفیق حسن ایلیا کی سرپرستی میں حاصل کی۔ادیب کامل(اردو)، کامل(فارسی) ، فاضل(عربی) کے امتحانات پاس کیے۔ 1957ء میں بھارت سے ہجرت کرنے کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی۔

ان کی شاعری کے 5 مجموعے شاید، 1991۔ یعنی، 2003۔ گمان، 2004۔ لیکن، 2006۔ گویا، 2008۔اور نثری تحریروں کا ایک مجموعہ فرنود، 2012 شائع ہوا۔ ایک طویل نظم رموز الگ سے شائع ہوئی۔

 

جون ایلیا کے کچھ اشعار

 

ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک

بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی

 

جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ

وصل سے انتظار اچھا تھا

 

سب سے پر امن واقعہ یہ ہے

آدمی آدمی کو بھول گیا

 

زندگی ایک فن ہے لمحوں کو

اپنے انداز سے گنوانے کا

 

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری

تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

 

پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں

زمیں کا بوجھہ ہلکا کیوں کریں ہم

 

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

 

یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا

محبت زہر کھا کر آئی تھی کیا

 

شام کو اکثر بیٹھے بیٹھے دل کچھہ ڈوبنے لگتا ہے

تم مجھہ کو اتنا نہ چاہو میں شاید مر جاؤں گا

 

اب تو ہر بات یاد رہتی ہے

غالباً میں کسی کو بھول گیا

 

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

 

بہت نزدیک آتی جا رہی ہو

بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

 

میری ہر بات بے اثر ہی رہی

نقص ہے کچھہ مرے بیان میں کیا

 

مجھہ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں

یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

 

آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا

جوں ہی دروازہ کھولا ہے اس کی خوشبو آئی ہے

 

اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر

کب پرند اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے

 

اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو

وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی

 

حاصل کن ہے یہ جہان خراب

یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں

 

حملہ ہے چار سو در و دیوار شہر کا

سب جنگلوں کو شہر کے اندر سمیٹ لو

 

ہر شخص سے بے نیاز ہو جا

پھر سب سے یہ کہہ کہ میں خدا ہوں

 

اک عجب آمد و شد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال

جونؔ برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھہ میں

 

علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں

وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

 

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

 

کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی

تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا

 

کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

 

کیا کہا عشق جاودانی ہے

آخری بار مل رہی ہو کیا

 

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

 

میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے

اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو

 

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا

جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

 

یہ وار کر گیا ہے پہلو سے کون مجھ پر

تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button