بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ، ایک طویل عرصے سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے پیچیدہ مسئلے سے نبرد آزما ہے۔ ایک طرف، شہر کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے، تو دوسری طرف بیوروکریسی، سیاسی یونین اور بیرونی عناصر کی نا اہلی دستیاب وسائل کے موثر استعمال میں رکاوٹ ہے۔ برسوں سے موجود چیلنجز نے کوئٹہ کو کچرے کے ڈھیر سے بھر دیا ہے جو آنکھوں کی تکلیف کا موجب اور صحت عامہ کے لیے تشویش کا باعث بن چکا ہے۔
تاہم، حکومت سے اضافی وسائل کا تقاضہ کیے بغیر بھی ہم اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرجوش میں۔ اسی ضمن میں صوبائی حکام نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کی طرف رجوع کیا ہے۔ اس نقطہ نظر کا، جس کا باضابطہ طور پر اعلان مارچ میں کیا گیا تھا، اس کا مقصد نجی شعبے کی کارکردگی اور رفتار کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے استعمال کرنا تھا جسے پبلک سیکٹر برسوں سے سنبھالنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ ہمارا آئیڈیا واضح تھا: کہ پرائیویٹ سیکٹر، سرخ فیتوں اور حکومت کے زیر انتظام منصوبوں میں اکثر پائی جانے والی خامیوں کو دور کر کے کوئٹہ کے ویسٹ مینجمنٹ سسٹم میں نئی زندگی اور کارکردگی لائے گا۔
فیصلہ دلیرانہ تھا۔ اگست تک، اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا گیا، اور چند ہی مہینوں کے اندر، کوئٹہ کے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جا رہی تھیں۔ پروجیکٹ کی ٹائم لائن جوشیلی تھی – شاید حد سے زیادہ۔ حکومت نے دسمبر تک شہر کے ایک علاقے کو مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنایا جو دوسرے شہروں کے مقابلے میں مشکل ہدف نظر آیا۔ مثال کے طور پر، لاہور کو ویسٹ مینجمنٹ کے اسی طرح کے ماڈل کو نافذ کرنے میں چار سال لگے، اور پشاور اب بھی ایک قابل عمل حل ڈھونڈنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ان رکاوٹوں کے باوجود کوئٹہ کی ٹیم وزیراعلیٰ آفس کے تعاون سے جوش و خروش سے آگے بڑھی۔ کل سامنے آنے والے نتائج کسی تبدیلی سے کم ہرگز نہیں تھے۔ یہ پراجیکٹ، جو *صفا کوئٹہ* (ایک پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) کے نام سے کام کرتا ہے، اس نے ایک ہی دن میں 1,500 ٹن کچرا کامیابی سے اکٹھا کیا۔ یہ ایک قابل ذکر کارنامہ ہے – اس سے پہلے، میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ذریعہ اسی علاقے میں جمع ہونے والا سب سے زیادہ ٹن صرف 290 ٹن تھا۔
اس مقام تک پہنچنے کا سفر کسی رولر کوسٹر سے کم نہیں رہا۔ مظاہروں اور قانونی چیلنجوں، بشمول پروجیکٹ کے خلاف رٹ پٹیشنز سے لے کرمختلف اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے مزاحمت تک، راستہ ہموار نہیں تھا۔ تاہم، تمام تر مشکلات کے باوجود، پراجیکٹ کامیاب ٹہرا۔ *صفا کوئٹہ* کی کامیابی نے ناقدین کو دنگ کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ اب اس منصوبے کی رفتار اور اس کے وسیع پیمانے کو تسلیم کر رہے ہیں۔
یہ کامیابی صرف نمبروں کی نہیں ہے۔ یہ سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان تعاون کی طاقت اور تعمیراتی حل کی صلاحیت کے موجود ہونے کا ثبوت ہے۔ *صفا کوئٹہ* نے جس کارکردگی اور پیمانے پر آپریشن کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحیح قیادت اور وژن کے ساتھ بظاہر ناقابل تسخیر مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ اتنے کم عرصے میں کچرے کو جمع کرنے میں تیزی سے پیش رفت ایک خاموش انقلاب ہے جو شہر کی صفائی اور صحت کو نمایاں طور پر بہتر بنائے گا۔
کوئٹہ کے کچرے کے انتظام کے مسائل جلد ہی ماضی بن جائیں گے۔ صرف چند مہینوں میں، شہر میں موجود دہائیوں سے جمع کچرے کے ڈھیروں کو صاف کر دیا جائے گا اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا نظام کہیں زیادہ موثر اور پائیدار ہو جائے گا۔ *صفا کوئٹہ* کی راہنمائی کے ساتھ، یہ ماڈل کوئٹہ میں آنے والے کئی سالوں تک ویسٹ مینجمنٹ کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس منصوبے کی کامیابی اس طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنے والے دوسرے شہروں کے لیے ایک سبق ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ جدت، نجی شعبے کی کارکردگی اور مضبوط سیاسی عزم کے صحیح امتزاج سے بظاہر ناممکن مسئلوں کو حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ پراجیکٹ، جو ایک پرخطر تجربے کے طور پر شروع ہوا وہ اب اس بات کی ایک روشن مثال میں تبدیل ہو گیا ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کس طرح پیچیدہ شہری مسائل سے کامیابی سے نمٹ سکتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس شراکت داری کے تحت کوئٹہ اپنے رہائشیوں کے لیے ایک صاف ستھرا، صحت مند شہر بننے کی راہ پر گامزن ہے۔