پاکستان کی 77 سال بعد اب آکر بجلی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 31 ہزار میگاواٹ تک پہنچی ہے جب کہ واپڈا نے آج سے 60 سال پہلے ہی اکیلے دریائے سندھ سے 42 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا خاکہ بنا لیاتھا لیکن اقتداریہ نے کسی دور میں اس کو اہمیت نہ دی؟
کسی بھی دریا کے پانی سے بجلی بنانے کے لئے تین چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ پانی کا مسلسل بہاؤ، ہیڈ یا ڈھلوان ، نیشنل گرڈ سے قربت اور ڈیمانڈ یا کھپت۔
دریائے سندھ ان چاروں چیزوں کے لحاظ سے آئیڈیل ہے جس پر صرف 15 جگہوں پر ہائیڈروپاور سٹیشن بنا کرملکی ضرورت کی تمام بجلی پانی سے پیدا کی جاسکتی ہے جوکہ انتہائی سستی اور ماحول دوست ہوگی۔
دریائے سندھ دُنیا کے بڑے دریاؤں میں شامل ہے جس میں پانی کا بہاؤ سارا سال جاری رہتا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں یہ 10 لاکھ کیوسک تک بھی پہنچ جاتا ہے جب عام دنوں میں ہزاروں کیوسک پانی اس میں چلتا رہتا ہے۔
دریائے سندھ پاکستان میں 8,430 فُٹ کی بُلندی پر داخِل ہوتا ہے اور بحیرہ عرب تک 2,000 کلومیٹر میں بہتا ہے۔ دریا کی پہلے 500 کلومیٹر کی لمبائی میں 7,000 فُٹ سے زیادہ کی گہرائی یا ڈھلوان آتی ہے جو کہ ہائیڈروپاور بنانے کے لیے آئیڈیل ہے۔
شاہراہِ قراقرم دریا کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور اس کے کسی بھی حصے تک تعمیراتی کام کے لئے رسائی دیتی ہے جب کہ نیشنل گرڈ اس بجلی کو تمام ڈیمانڈ سنٹرز تک رسائی دیتا ہے:
نیچے ان 15 مقامات کی فہرست دے رہا ہوں جہاں واپڈا نے دریائے سندھ پر ہائیڈروپاور سٹیشن لگانے کے منصوبوں کے خاکے نصف صدی پہلے سے ہی بنا رکھے ہیں جن میں سے کچھ پہلے ہی بن چُکے، کچھ پر سست رفتاری سے کام جاری ہے اور کچھ ابھی فائلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں:
1-شائےکوٹ (640 میگاواٹ)
2-سکردو (1200 میگاواٹ)
3-ٹُنگس (2200 میگاواٹ)
4-یلبو (2800 میگاواٹ)
5-بُنجی (7100 میگاواٹ)
6-دیامیر بھاشا (4500 میگاواٹ)
7-داسُو (4320 میگاواٹ)
8-پٹن (2400 میگاواٹ)
9-تھاکوٹ (4673 میگاواٹ)
10-تربیلا اور غازی بروتھا (7748 میگاواٹ)
11-اکھوڑی (600 میگاواٹ)
12-کالاباغ (3600 میگاواٹ)
13-جناح بیراج (96 میگاواٹ)
14-چشمہ بیراج (184 میگاواٹ)
15-تونسہ بیراج (135 میگاواٹ)
ان بڑے ہائیڈرو پاور منصوبوں کے علاوہ تونسہ بیراج سے ٹھٹھ تک 1000 کلومیٹر کی لمبائی میں دریا پر رِن آف رِور (بہتے دریا سے بجلی) بنانے کے کم از کم 10 سے زیادہ منصوبے لگائے جاسکتے ہیں جن میں سے ہر ایک نہ صرف 300 میگاواٹ سے 500 میگاواٹ تک بجلی پیدا کرسکتا ہے بلکہ ان سے دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ کو بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔