نہ قانون تبدیل ،نہ مجاز اتھارٹی کا حکمنامہ، مچنگ فیس اور ہیلتھ سرٹیفکیٹ کی مد میں بلدیہ عظمٰی کراچی کو دو ارب سے زائد آمدنی سے محروم کردیا گیا

کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) نہ قانون میں تبدیلی کی گئی، نہ مجاز ادارے نے کوئی حکم نامہ جاری کیا لیکن اس کے باوجود سندھ حکومت نے بلدیہ عظمٰی کراچی کے سب سے بڑے آمدنی کے ادارے میچنگ فیس اور ہیلتھ فیس کے ادارے پر غیر قانونی طور پر قبضہ کرتے ہوئے دو ارب روپے سے زائد ریونیو سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ ریونیو آڈر گذشتہ 15 سال سے ایک کمشنر کراچی کے حکمنامہ پر محکمہ بلدیات سندھ نے عارضی بنیاد پر جاری کیا تھا،اور مجموعی طور پر 20سے 25ارب روپے کا تلافی نقصان پہچاچکے ہے جس کے تحت بلدیہ عظمٰی کراچی سے یہ ٹیکس چھین کر پہلے ڈسٹرکٹ کونسل کراچی، پھر ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن ملیر اور اب جبرا” گڈاپ ٹاون کو آمدن میں لوٹ مار کیلئے سپرد کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں نہ آمدن میں حصہ دینے کا اعلان کیا گیا اور نہ کوئی رقم کی ڈیمانڈ کی گئی اور نہ اس کا قبضہ واپس کرنے کی بات کی گئی۔ اس سلسلے میں صوبائی وزیر بلدیات، سیکریٹری بلدیات یا کمشنر کراچی ٹیکس منتقل کرنے کے نہ مجاز اتھارٹی ہیں، نہ بلدیاتی قوانین تبدیل کرنے کا انہیں کوئی اختیار ہے۔ یہ ٹیکس سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء نافذ ہونے کے بعد بلدیہ عظمٰی کراچی کی ملکیت ہے اور کالعدم ہونے والی شہری حکومت کا حصہ تھا۔ قبل ازیں یہ پہلے بھی تھا اوراب یہ قانون تبدیلی ہونے تک رہے گا۔ اس کی وصولی کا طریقہ کار کا قانون بھی واضح ہے۔ سالانہ بنیاد پر نیلامی کے ذریعہ ریونیو کا ٹھیکہ الاٹ کیا جاتا تھا۔ مبینہ طور پر کمشنر کراچی سید حسن نقوی نے اس ٹیکس کو گڈاپ ٹاون کو روکنے اور بلدیہ عظمٰی کراچی کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تھا اور صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے ایک بار پھر کمشنر کراچی کا حکمنامہ غیر قانونی طور پر روک دیا ہے اور ہدایت کی ہے ٹیکس ریونیو گذاپ ٹاون کو وصول کرنے دیں اس امر کا اعتراف میئر کراچی مرتضٰی وہاب نے پریس کلب میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران بھی کیا انہوں نے بتایا یہ دونوں ٹیکس بلدیہ عظمٰی کراچی کا حق ہے اور رہے گا۔ اس کو حاصل کرنے کی جدوجہد کریں گے۔ انہوں نے صوبائی وزیر بلدیات کے فیصلے کو فورم میں چیلنج کریں گے،اس ضمن میں وہ کس فورم پر آواز بلند کریں گے اس حوالے سے انہیں نے کچھ نہیں بتایا حالانکہ وہ سندھ حکومت کے لیگل ایڈوائزر، بلاول زرداری کے ترجمان(مولانا فضل الرحمان کے ساتھ 26 ویں ترمیم پر بلاول زرداری کی لیگل ٹیم کی انہوں نے سربراہی کی تھی) اس کے علاؤہ وہ اس وقت میئر کراچی ہیں لیکن حیرت ہے کہ جو کام وہ سندھ حکومت سے باآسانی کرا سکتے ہیں اس کیلیئے بھی وہ کسی فورم کی بات کر رہے ہیں۔ایک بار پہلے بھی سعید غنی نے اس ٹیکس کی نام نہاد واپسی کیلیئے بظاہر ایک کمیٹی تشکیل دی تھی لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوسکا کیونکہ انہوں نے صرف آئی واش کیلیئے یہ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ واضح رہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ ویٹرنری کے مطابق میچنگ فیس صرف دودھ دینے والے جانور پر نافذ ہے جبکہ ہیلتھ سرٹیفکٹ فیس کراچی آنے والے چھوٹے بڑے جانوروں پر نافذ کیا گیا ہے۔ ڈیری اینڈ کیٹیل فارمز ایسوسی ایشن کے شاکر گجر کا کہنا ہے کہ پہلے 600 روپے فی جانور ٹیکس وصول کیا جاتا تھا لیکن چند ماہ قبل گڈاپ ٹاؤن نے فی جانور ڈیڑھ سو روپے کے اضافے کے ساتھ ساڑھے سات سو (750) روپے ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ کراچی میں دودھ دینے والے جانوروں میں گائے بھینس پر فی کس نافذ ہے اور تقریباً کراچی میں دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد 10 تا 12 لاکھ ہے اگر فی کس جانوروں کی میچنگ فیس لگائی جائے تو یہ 75 کروڑ روپے سے تجاوز کرتا ہے اور،ہیلتھ فیس، مذبحہ خانہ آنے والے جانوروں میں بکرے، دمبے،گائے، بھینس اور اونٹ پر ٹیکس نافذ ہے۔ ایک سال کے دوران 17 تا 18 لاکھ جانوروں کی ہیلتھ فیس کی مد میں ایک ارب 27 کروڑ 50 لاکھ روپے آمدن کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اگر دونوں ٹیکس کو جمع کیا جائے تو مجموعی طور پر بلدیہ عظمٰی کراچی کو دو ارب دو کروڑ 50 لاکھ روپے آمدن سے محروم کیا جارہا ہے۔ اس گھناؤنے کاروبار میں مبینہ طور پر ڈپٹی میئر کراچی سلمان مراد، بلدیہ عظمی کراچی کے بعض افسران کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت بھی ملوث ہے۔ اس کی آمدن کا 80 فیصد بندر بانٹ کرکے رشوت اور کمیشن کراچی سسٹم کے تحت نیچے سے اوپر تک تقسیم ہوتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ٹیکس کا حکمنامہ سابق وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کے نواسے علی شاہ نے کرایا تھا بعد میں کراچی سسٹم کے تحت مافیا میں تقسیم ہونا شروع ہوگیا اور اب تمام تحقیقاتی ادارے بھی چمک کے ذریعے اپنا حصہ وصول کررہے ہیں۔ پولیس کے ساتھ دیگر اداروں کو بھی اس کا بھتہ باقاعدہ دینے کی تصدیق بعض افسران کررہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ نیب کراچی نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے فوری ضلعی بلدیات ملیر کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس ٹیکس کی وصولی سے ادارے کو روک دینے اور متعلقہ افسران کے خلاف کاروائی کی ہدایت کیا تھی لیکن14 سال گزر جانے کے باوجود سندھ حکومت نے کسی افسر کے خلاف نہ کاروائی کی اور نہ کسی کو غیر قانونی ٹیکس وصول سے روکا گیا۔ علاوہ ازیں ویٹرنری ڈپارٹمنٹ میں 6 ڈاکٹرز میں سے اگلے ماہ دو ڈاکٹرز ملازمت سے ریٹائرڈ ہو جائیں گے ویٹرنری ڈپارٹمنٹ میں صرف 4 ڈاکٹرز ملازمت پر رہ گئے ہیں جن سے کام نہیں لیا جارہا ہے۔ کراچی کے 7 ضلع پر مشتمل پورے شہر میں 72 ڈاکٹرز کی ٹیم کی ضرورت ہے۔ ضلع یا ٹاؤن کی سطع پر ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے، لیکن اس وقت شہر میں دو سرکاری سلاٹر ہاؤس کے علاوہ سیکڑوں غیر قانونی مذبحہ خانے شیر کے مختلف علاقوں میں چل رہے ہیں لیکن ان سے قانونی طریقے سے فیس وصولی کے بجائے کراچی سسٹم کے تحت غیر قانونی طور پر بھتہ وصول کیا جا رہا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ انتہائی بااثر میئر کراچی کی ناک نیچے ہو رہا ہے اور وہ بھی کھلے عام کراچی سسٹم کے تحت ہونے والے اس غیر قانونی دھندے کو دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ کر نہیں پا رہے ہیں یا کرنا چاہ رہے ہیں بلکہ مصلحت کے تحت اپنی آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button