وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان میں وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 154 (4) کے تحت ہر نوے روز میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانا لازمی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ 9 ماہ ہو چکے ہیں اور مشترکہ مفادات کونسل کا ایک اجلاس بھی نہیں بلایا گیا، انہوں نے نشاندہی کی کہ آئین کی رو سے اب تک تین اجلاس ہو جانے چاہئیں تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت کو ہر صورت میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانا چاہیے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کے پروبیشنری آفسرز نے بھی ملاقات کی۔ مراد علی شاہ نے افسران کے وزیراعلیٰ ہاؤس کے مطالعاتی دورے کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے افسران کے مستقبل کے بارے میں نیک تمناؤں کا اظہار کیا تاہم واضح کیا کہ کیریئر میں پروفیشنلزم اور ایمانداری اہم ہے۔ ہمارے ملک کو باصلاحیت آڈٹ و اکاؤنٹس افسران کی ضرورت ہے اور یقین ہے آپ اس پر پورا اتریں گے۔
ملاقات میں چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، پرنسپل سیکریٹری آغا واصف ، ریکٹر اکیڈمی سمینا فیاض، چیئرمین پی اینڈ ڈی نجم شاہ، سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ، سیکریٹری مالیات فیاض جتوئی، پیپلز ہاؤسنگ کے سی ای او خالد شیخ اور دیگر حکام شریک تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے افسران کو حکومت سندھ کے کئی اقدامات کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے بتایا کہ سندھ کا سالانہ ترقیاتی پروگرام493.09 ارب روپے کا ہے جس میں وفاقی پی ایس ڈی پی کا حصہ76.97 ارب روپے ہے۔ 334 ارب روپے کے بیرونی امدادی منصوبے ہیں جبکہ ضلعی ترقیاتی پروگرام کےلیے 55 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
صوبائی حکومت کی ترجیحات بتاتے ہوئے وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت اور سیلاب سے متاثرہ اسکولوں کی دوبارہ تعمیر اولین ترجیحات ہیں۔ صحت کے میدان میں حکومت سندھ کی توجہ بنیادی صحت اور زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کی سہولیات پر ہے۔
مراد علی شاہ نے اپنی انتظامیہ کی ترجیحات کے اہم شعبوں پر بھی روشنی ڈالی، انہوں نے بتایا کہ سماجی تحفظ ، خواتین کو بااختیار بنانے، غربت کے خاتمے اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے کےلیے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
توانائی کے شعبے کے بارے میں وزیراعلیٰ نے بتایا کہ اس وقت کئی منصوبوں پر کام جاری ہے جن کی 2025 تک تکمیل متوقع ہے۔ کم آمدن والے گھرانوں کو سولر ہوم سسٹم کی فراہمی کا آغاز کردیا گیا ہے۔