وبائی امراض ڈائریا پر قابو پانے کے لئے حفاظتی اقدامات GulzarAhmadRaja (R) Incharg Anti Epidemic Staf Ex-MCL.

کٹ فروٹ، کٹے ہوئے پھل جو بازار میں موجود ہیں،پائے جاتے ہیں ۔ عوام بالکل نہ کھائیں ان سے پرہیز کریں۔اگر پھل تربوز،خربوزہ، آم ،آڑو، لوکاٹ وغیرہ کھانے بھی ہیں تو گھر لے جا کر پھل ٹھنڈا کر کے کھا سکتے ہیں ۔اس سے آپ ڈائریا سے محفوظ رہیں گے۔ گھروں میں پھلوں کے چھلکے ڈسٹ بن میں زیادہ دیر تک نہ رکھیں۔ اس سے تعفن پھیلے گا ۔مچھر،مکھی وغیرہ اور دیگر حشرات پیدا ہونگے ۔جتنی جلدی ہوسکے اپنے گھر سے کوڑا والا ڈسٹ بن فلتھ ڈپو ،کنٹینرز یا سنٹری ورکرز کے حوالےکریں۔کنٹینرز وغیرہ میں کوڑا کرکٹ سورج طلوع ہونے سے پہلے یا کم از کم ٹمپریچر بڑھنے سے پہلے اٹھوا لیا جائے تاکہ تعفن ،مکھیاں، مچھر اور حشرات وغیرہ پیدا نہ ہو سکیں۔ڈائریا پھیلانے والے جراثیم میں سب سے اہم کردار مکھی کا ہے۔مکھی خراب سے کٹے ہوئے پھل کے رس یا چھلکے سے 24 گھنٹے میں پیدا ہو جاتی ہے۔اور انسان کی خوراک میں جراثیم شامل کر دیتی ہے جس کی وجہ سے ڈائریا پھیلتا ہے۔ڈسٹ بن، کنٹینرز میں سے کوڑا جتنی جلدی ڈمپنگ گراؤنڈ منتقل کردیا جائے گا اس قدر اس وبا کو کنٹرول کرنا آسان ہوگا۔اس سلسلہ میں ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں اور بلدیاتی اداروں کو بروقت اور فوری کوڑا ٹھکانے لگانے کا پابند کرنا ہوگا۔تعفن کو ختم کرنے کے لئے دیگر حفاظتی اقدامات کے ساتھ ہر یونین کونسلز یا تحصیل کی سطح پر باقاعدہ طور پر پروگرام کے مطابق ڈبلیو ایچ او کی سفارش کردہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ایسی ادویات کا سپرے کیا جائے مکھی وغیرہ کی بریڈنگ وغیرہ کا موقع پر خاتمہ ہو سکے۔تعفن ختم کرنے کے لئے کیڑے مار ادویات کے ساتھ بدبو ختم کرنے کے لئے بھی سپرے کیا جائے۔محکمہ ہیلتھ اور بلدیاتی اداروں کے پاس ٹربو مشینیں موجود جن کو استعمال میں لا کر نہ صرف مکھیوں بلکہ مچھر،ڈینگی ،ٹائیفائڈ، ملیریا اور دیگر وبائی امراض کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔یونین کونسل کی سطح پروگرام تشکیل دیا جائے تو زیادہ مواثر آپریشن ہوگا اور یونین کونسلز کے عملے کو بھی مشینری فراہم کر کے وبائی امراض کی روک تھام کی تربیت دی جا سکتی ہے۔بلدیاتی اداروں کے شعبہ ہیلتھ و وبائی امراض کے ملازمین کو مفت میں تنخواہیں لے رہے ہیں کام لے کران کے تجربہ اور صلاحیتوں سے فائدہ آٹھایا جائے۔شعبہ وبائی امراض پر الگ سے توجہ دی جائے اور اس مردہ شعبہ میں جان ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button