اپنی قوت اپنی جان، جاگ رہا ہے پاکستان ،آج سب سے زیادہ قومی نغمے گانے والے نامور گلوکار تاج ملتانی کی چھٹی برسی ہے.

اپنی قوت اپنی جان، جاگ رہا ہے پاکستان

 

آج سب سے زیادہ قومی نغمے گانے والے نامور گلوکار تاج ملتانی کی چھٹی برسی ہے.

وہ ضلع لودھراں کے مشہور قصبے، کہروڑ پکّا میں پیدا ہوئے تھے اور 22 جون 2018ء کو کراچی میں انتقال ہوا.

لڑکپن ہی میں شام چوراسی گھرانے کے نام وَر کلاسیک گائیک، استاد سلامت علی خان کے شاگرد ہوگئے۔ استاد اختر علی خان اور استاد ذاکر علی خان بھی اُن کے ہم سبق تھے۔ اُس زمانے میں استاد نزاکت علی خان، استاد سلامت علی خان ملتان میں قیام پزیر تھے اور اُن کی کلاسیکل گائیکی کا طوطی پورے پاک و ہند میں بول رہا تھا۔ چوں کہ تاج ملتانی کو موسیقی سے والہانہ عشق تھا، اس لیے’’ راگ ودیا‘‘ کے مشکل مقامات بہت جلد ازبر کرلیے۔ وہ روزانہ پانچ، چھے گھنٹے ریاض کرتے، یہی وجہ تھی کہ نیم کلاسیکل، بالخصوص’’ ٹھمری اور ’’دادرا‘‘ میں اُن کی شہرت کا آغاز 1960ء ہی میں ہونے لگا۔ تاج ملتانی نے غزل، عارفانہ کلام، لوک گیتوں میں بھی نام روشن کیا۔ استاد سلامت علی خان تاج ملتانی کو موسیقی کی محافل میں ساتھ لے جانے لگے اور پھر ریڈیو پاکستان، لاہور میں اُن کی ملاقات عہد ساز موسیقار نیاز حسین شامی سے ہوئی، جو اُن کی چُھپی صلاحیتوں کو سامنے لائے اور اُن سے غزلیں اور گیت گوائے۔ 1965ء کی جنگ میں اُن کے گائے ہوئے ترانے’’جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی‘‘ نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔ اُسی زمانے میں اُن کی مہدی حسن، اعجاز حسین حضروی، زاہدہ پروین، فریدہ خانم، اقبال بانو اور ثریا ملتانیکر سے ملاقات ہوئی۔ وہ زمانہ، غزل میں مہدی حسن اور اعجاز حسین حضروی کا تھا۔ تاج ملتانی اُن سے متاثر تو بہت تھے، لیکن اُن کی تقلید سے دامن بچائے رکھا۔ استاد نزاکت علی خان اور استاد سلامت علی خان 1965ء میں ملتان سے لاہور منتقل ہوئے، تو تاج ملتانی کراچی جا بسے۔ وہاں اُن کی ملاقات مہدی حسن کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر سے ہوئی اور پھر اُنھوں نے پنڈت جی کی یادگار طرزیں گا کر غزل، گیت اور عارفانہ کلام میں کمال پیدا کیا. اُنہیں درست تلفّظ کا بھی لپکا تھا، مگر چوں کہ اُن کی مادری زبان سرائیکی تھی اور وہ زیادہ تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکے تھے، اس لیے اُنھیں اُردو الفاظ کی درست ادائی میں مشکل پیش آتی تھی۔ اس ضمن میں اُن کی خوش بختی یہ رہی کہ اُنھیں ریڈیو پاکستان، کراچی میں نام وَر شعراء عزیز حامد مدنی، محشر بدیوانی، سلیم احمد، رضی اختر شوق کی رفاقت نصیب ہوگئی، جن سے الفاظ کی درست ادائی میں رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ اُن کا سلیم گیلانی (مرحوم) سے تعارف استاد سلامت علی خان نے کروایا تھا، جنہوں نے گائیکی اور شعریات کے باب میں اُن کی بھرپور رہنمائی کی۔ بلاشبہ ریڈیو پاکستان، کراچی اُن کے فن کی آب یاری اور فروغ کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوا۔ تاج ملتانی نے اُس زمانے میں میر تقی میر، سودا، غالب، آتش، نواب مرزا داغ سے لے کر فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، سلیم احمد، احمد فراز، عبیداللہ علیم، اطہر نفیس اور سلیم کوثر وغیرہ کا کلام گایا۔ وہ نہایت منکسرالمزاج اور ایثار پیشہ انسان تھے۔ اساتذۂ فن کی بے حد قدر کرتے۔ہمیشہ ریاض پر زور دیا کرتے۔ اُنہیں بیسوی صدی کے عظیم کلاسیکل گائیک، استاد بڑے غلام علی خان، استاد امیر خان اندور والے، استاد برکت علی خان اور ملکۂ موسیقی، روشن آرا بیگم سے بے پناہ عقیدت تھی اور حیدرآباد کے معروف گائیک، استاد امید علی خان کے تان پلٹا اور گُمَک کے بھی دِل دادہ تھے۔ ان مشاہیر کے اسلوبِ غنا کو تاج ملتانی نے زندگی بھر رہنما اصول بنائے رکھا۔ تاج ملتانی ایک فطری گائیک تھے اور صوفیا کے عاشقِ صادق، اس لیے اُنہوں نے بلّھے شاہ، خواجہ فرید، شاہ لطیف بھٹائی، شاہ حسین، وارث شاہ وغیرہ کے کلام کو ازحد رچاؤ، سوز اور تیاری کے ساتھ گایا۔

تاج ملتانی غزل، گیت، ٹھمری یا عارفانہ کلام گاتے ہوئے اس کے مرکزی خیال کو نہایت مہارت سے ادا کرتے۔ وہ مشکل مقاماتِ موسیقی کو بھی سہل اور سادہ انداز سے گاتے، حالاں کہ ان مقامات پر بہت سے گائیکوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔

تاج ملتانی نے ملتان، لاہور اور کراچی میں موسیقی کے مختلف اساتذہ سے سیکڑوں بندشیں یاد کی تھیں، مگر وہ گاتے اپنے گلے اور انفرادی آہنگ ہی سے تھے تاکہ تقلید کا شائبہ نہ ہو ۔ 60ء کی دہائی میں نثار بزمی، بابا جے اے چشتی اور حسن لطیف نے اُنہیں فلموں میں گانے پر اکسایا، مگر اُنہوں نے نہایت احترام سے معذرت کرلی، کیوں کہ فلمی دنیا میں خلافِ مزاج گانوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ دو فلموں کیلئے گائے بھی لیکن اتفاق سے یہ دونوں فلمیں ریلیز نہ ہو سکیں. 1969 کی فلم "یہ زندگی تو نہیں” میں ایک نعتیہ کلام "خلوص دل کے سجدے رائیگاں جایا نہیں کرتے” ریحانہ یاسمین کے ساتھ گایا. اسی سال فلم "بڑھے چلو” میں ایک گیت "سب کچھ ھے دنیا والو” گایا.

تاج ملتانی درویشانہ مزاج رکھتے تھے، نمود و نمائش سے متنفّر رہے۔ خوشامد اور چاپلوسی جیسے عام عیوب سے بھی کوسوں دور تھے، شاید اسی لیے اُنہیں ساٹھ برسوں کے طویل گائیکی کے سفر کے بعد حکومت نے صدارتی تمغہ حُسنِ کارکردگی سے نوازا. گلوکارہ نگہت سیما تاج ملتانی کی شریک حیات تھیں. ان کی صاحبزادی ثنا علی نعت خواں ہیں… برادرم علی تنہا اور فیاض احمد اشعر سے استفادہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button